توہین مذہب
حمیراعلیم
اللہ تعالٰی قرآن میں بارہا ان لوگوں کا ذکر فرماتا ہے جو اس کے احکام کا انکار کرتے ہیں ان پر عمل سے حیل و حجت سے کام لیتے ہیں اور انہیں ک ا ف ر کہا جاتا ہے۔یعنی ہر وہ شخص، مسلمان پہلے اورغیر مسلم بعد میں کیونکہ مسلمانوں کو تو قرآن پاک کے احکام کا علم ہے غیر مسلم تو انجان ہیں، جو احکام الہی کو جان لے اور پھر اس پر کسی بھی وجہ سے عمل نہ کرے خواہ اس کا دل نہ چاہتا ہو، وہ اکثریت کی پیروی میں ایسا نہ کرے، اسے آباو اجداد کا فعل بہتر لگے وغیرہ تو وہ شرک کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ اس نے کسی اور چیز، انسان اپنی خواہش نفس کو اللہ کے حکم پر ترجیح دی ہوتی ہے۔دراصل توہین مذہب یہی ہے۔
اگر کوئی شخص قرآن پاک کی بے حرمتی کرے اسے جلا دے یا شہید کر دے۔نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یا اللہ تعالٰی کے بارے میں گستاخانہ کلمات کہے تو یقینا وہ مسلمان تو نہیں ہو گا فرض کیجئے نام کا یا پیدائشی مسلمان تھا بھی تو اس فعل کے بعد دائرہ اسلام سے خارج ہو گیا۔اور غیر مسلم اس حرکت کے مرتکب ہوں تو اس بارے میں قرآن حدیث میں قانون موجود ہے۔
فقہ حنفی کے مطابق اگر شاتم رسول غیر مسلم ہے تو اس پر قتل کی حد نافذ نہیں ہو گی، بلکہ حکومت وقت اسے تعزیزی سزا دے گی۔ اگر غیر مسلم نے ہلکی نوعیت کا جرم کیا ہو گا تو حکومت اسے تنبیہ کر کے سزا مکمل طور پر معاف بھی کر سکتی ہے۔ جرم جوں جوں سنگین ہوتا جائے گا، حکومت حالات کے تحت ایسے ہی سخت سزا سنا سکتی، حتی کہ بار بار یہ جرم کرنے پر حکومت موت کی سزا بھی سنا سکتی ہے۔
امام طحاوی نے لکھا ہے کہ پہلی مرتبہ سب و شتم کرنے والے ذمی کو صرف زبانی تنبیہ کی جائے، جبکہ اس کے بعد اگر وہ اس کا مرتکب ہو تو بھی اسے قتل کرنے کی بجائے تادیبی سزا ہی دی جائے (مختصر الطحاوی، صفحہ 262)[19]
اگر گستاخِ رسول مسلمان ہے تو اس کو توبہ کا موقع دیا جائے گا۔ اگراس نے توبہ کر لی تو اس کی سزا معاف ہو جائے گی، وگرنہ پھر اسے قتل کر دیا جائے گا۔
اگر گستاخ مسلمان عورت ہے اور وہ توبہ نہیں بھی کرتی، تب بھی اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔قید رکھا جائے گا۔( یہی قرآنی آیت میں مذکور ہے)
قانون پاکستان
ہر صورت میں غیر مسلم کو قتل کر دیا جائے گا، چاہے کسی سے ہنسی مذاق میں ہی گستاخی کا ایک جملہ ہی کیوں نہ نکل گیا ہو۔ جرم چاہے ہلکا ہو یا سنگین نوعیت کا، ہر صورت میں اس غیر مسلم شخص کو قتل کر دیا جائے گا۔
ہر صورت میں ایسے مسلمان کو قتل کر دیا جائے گا اور اس کی کوئی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔
سورۃ الاحزاب ۔ ایت57 ترجمہ: بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صل اللہ علیہ وسلم کو ایذاء دیتے ہیں ، اللہ ان پر دنیا اور اخرت میں لعنت کرتا ہے۔ اور ان کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس کے علاوہ جہاں قتل کی سزا کا ذکر ہے وہاں گواہی کے اصول بھی بیان کیے گئے ہیں اور فرمایا:
اے ایمان والو اللہ کے حکم پر خوب قائم ہوجاؤ انصاف کے ساتھ گواہی دیتے اور تم کو کسی قوم کی عداوت اس پر نہ اُبھارے کہ انصاف نہ کرو، انصاف کرو، وہ پرہیزگاری سے زیادہ قریب ہے اور اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ کو تمہارے کامو ں کی خبر ہے۔المائدہ 8
ان تمام احکام و احادیث کی روشنی میں جب بھی کسی بھی ملزم پر الزام عائد ہو اسے یہ حق حاصل ہے کہ اسے گرفتار کیا جائے، اس پر مقدمہ چلایا جائے، عادل گواہان کی گواہی کے بعد عدالت اسے سزا دینے کا فیصلہ کرے گی اور پولیس اس سزا پر عمل درآمد کرے گی۔
کسی بھی فرد، جماعت یا ہجوم کو ہرگز ہرگز یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی بھی مجرم یا ملزم کو خود سے سزا دے۔
ہمارے ہاں یہ ٹرینڈ ہی بن گیا ہے کہ کسی مسلمان یا غیر مسلم سے ذاتی اختلاف ہو جائے یا دشمنی نکالنی ہو فورا گستاخی مذہب یا رسول کا الزام لگا کر انہیں بیدردی سے قتل کر دیا جاتا ہے یا جلا دیا جاتا ہے۔فرض کیجئے مقتول اس گناہ کا مرتکب تھا تب بھی کیا کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اسے بغیر اپنی صفائی پیش کیے مقدمہ چلائے جرم ثابت کیےقتل کر دے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں قرآن کی کئی آیات میں اللہ تعالی نے یہود و نصار، منافقین خصوصا عبد اللہ بن ابی سلول کے بارے میں قرآن میں آیات نازل فرمائیں کہ یہ سب گستاخی رسول کے مرتکب ہیں مگر مسلمانوں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کا حکم دیا گیا۔پھر جب مکہ میں مسلم ریاست قیام پذیر ہو گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دی کہ اب جو لوگ کھلم کھلا نبوت کے دعویدار ہیں یا گستاخی اللہ و رسول کے مرتکب ہیں انہیں مارا جائے۔اور چند ایک کو توبہ کرنے پر معاف بھی کیا گیا۔ان سب کو آپ قرآن و حدیث میں پڑھ سکتے ہیں یہاں لکھنے سے مضمون مزید طویل ہو جائے گا۔
پہلی بات تو یہ کہ پاکستان اور اس میں بسنے والے مسلمان صرف نام کے مسلم ہیں۔ان کا کوئی قانون یا عمل بمطابق شریعت محمدیہ نہیں۔ورنہ یہاں ہر طرح کا حرام رائج نہ ہوتا۔چند مثالیں دے رہی ہوں آپ سب بھی اپنے اردگرد ان سب کاموں سے واقف ہوں گے: شراب خانے، قحبہ خانے، زنا، شوبز، پامسٹس، جادوگر، بے حجابی، بے عملی، رشوت، جھوٹ، اقربا پروری، ناپ تول میں کمی، شرک۔غرض ہر وہ گناہ صغیرہ و کبیرہ جو قرآن و حدیث میں مذکور ہے ہم آج بڑے دھڑلے سے اس میں مبتلا ہیں اور تباہ شدہ اقوام کی طرح اسے گناہ جانتے بھی نہیں۔سچ سچ بتائیے کیا یہ توہین مذہب نہیں؟؟؟؟ کیونکہ اصل توہین مذہب تو یہی ہے نا کہ اس مذہب پر عمل ہی نہ کیا جائے جس کے آپ پیروکار ہوں۔
اگر واقعی قرآن و حدیث پر عمل کریں تو ہم میں سے ہر ایک گستاخی مذہب، اللہ اور رسول کا مرتکب ہو رہا ہے۔کیونکہ ہر ایک کسی نہ کسی حکم الہی سنت رسول کی پیروی سے منکر اور اس کے مخالف کاموں میں مبتلا ہے۔تو کیا ہم سب کو ایک دوسرے کو قتل کر دینا چاہیے؟؟؟؟؟ یقین مانیے اگر اللہ تعالٰی چاہتا تو ہر گناہ پر فرشتہ ڈنڈا مار کر ہمیں اسی وقت سدھار سکتا تھا۔یا ابراہہ کے لشکر کی طرح ابابیل کنکر برساتے اور گناہ گار چن چن کر موقعہ پر ہی ہلاک کر دیئے جاتے۔
اگر اللہ تعالٰی نے صحفیوں اور شریعتوں کے ذریعے قوانین عطا فرمائے ہیں اور حکومتیں قوانین بناتی ہیں عوام ان پر عمل کرتے ہیں تو صرف اور صرف اس لیے کہ زمین پر فساد برپا نہ ہو۔ جیسے کہ دور جہالت میں ہوتا رہا ہے۔لیکن یہ انسانی فطرت ہے کہ اسے شرک اور گناہ زیادہ پرکشش لگتے ہیں بنسبت وحدانیت اور نیکی کے۔اور یہ دونوں عمل مشکل ترین بھی ہیں تبھی ان کا اجر جنت رکھا گیا ہے۔
میری صرف ایک گزارش ہے کہ اپنے گریبان میں جھانکیے اپنے اعمال درست کر لیجئے ہر شخص اپنا فرض ایمانداری سے پورا کرے معاشرے میں امن قائم ہو جائے گا۔جب جب ہم یہ کام چھوڑ کر دوسروں کے جج بنتے ہیں اور خود ہی عدالت اور پولیس کا کام بھی کرنے کی کوشش کرتے ہیں فساد پھیلتا ہے۔ویسے بھی ہمیں حکم ربی و رسول یہی ہے کہ خود کو سدھاریں ۔لہذا خود کو توہین مذہب سے بچا لیں یہی بہت بڑی بات ہے۔