حضرت عمر اور خشیت الہی
جو دل خشوع وخضوع اورخوف خداوندی سے خالی ہے اس کی حقیقت ایک گوشت کے لوتھڑے سے زیادہ نہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ خشوع وخضوع کے ساتھ رات بھر نمازیں پڑھتے، صبح ہونے کے قریب گھر والوں کو جگاتے اوریہ آیت پڑھتے:وَم±ر َلََ بِالصَّلَاةِ وَاصطَبِر عَلََا، (سورہ طہ: 132) نمازمیں عموماً ایسی سورتیں پڑھتے جن میں قیامت کا ذکر یا خدا کی عظمت کا جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی، حضرت عبد اللہ بن شداد کا بیان ہے کہ میں باوجود یکہ پچھلی صف میں رہتا تھا ؛لیکن حضرت عمر یہ آیت اِنَّمَا اَشک±وبِثَی وَح±زنِی۔ پڑھکر اس زور سے روتے تھے کہ میں رونے کی آواز سنتا تھا۔ ( بخاری کتاب الصلاہ ) حضرت امام حسن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نماز پڑھ رہے تھے جب اس پر پہنچے:اِنَّ عَذابَ ربک لواقع مالہ من دافع “یہ تیرے رب کا عذاب یقینی ہوکر رہنے والا ہے اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں”تو بہت متاثر ہوئے اور روتے روتے آنکھیں سوج گئیں، اسی طرح ایک دفعہ اس آیت پر: وَِذَا ±لق±وا مِنَا مََانًا ضَِّقًا م±قَرَّنِنَ دَعَوا ±نَالَِ ث±ب±ورًا۔ (الفرقان:14) اس قدرخضوع وخشوع طاری ہوا کہ اگر کوئی ان کے حال سے ناواقف شخص دیکھ لیتا تو یہ سمجھتا کہ اسی حالت میں روح پرواز کر جائے گی، رقت قلب اورعبرت پذیری کا یہ عالم تھا کہ ایک روز صبح کی نماز میں سور یوسف شروع کی اور جب اس آیت پر پہنچے وَابیَضَّت عَینَاہ± مِنَ الح±زنِ فَھ±وَ کَظِیم، (سورہ یوسف) تو زاروقطار رونے لگے، یہاں تک کہ قرآن مجید ختم کرکے رکوع پر مجبور ہوگئے۔ ( کنز العمال ج 5: 224 ) قیامت کے مواخذہ سے بہت ڈرتے تھے اور ہر وقت اس کا خیال رہتا تھا، صحیح بخاری میں ہے کہ ایک دفعہ ایک صحابی سے کہا کہ “تم کو یہ پسند ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اسلام لائے، ہجرت کی، جہاد اورنیک اعمال کیے، اس کے بدلہ میں دوزخ سے بچ جائیں اور عذاب وثواب برابر ہوجائے، بولے خدا کی قسم نہیں، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی روزے رکھے، نمازیں پڑھیں، بہت سے نیک کام کیے اورہمارے ہاتھ پر بہت سے لوگ اسلام لائے ہم کو ان اعمال سے بڑی بڑی توقعات ہیں، حضرت عمر نے فرمایا اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے مجھے تو یہی غنیمت معلوم ہوتا ہے کہ عذاب سے بچ جائیں اورنیکی اور بدی برابر ہوجائیں۔ ( بخاری باب ایام الجاہلیہ ) ایک بار راہ میں پڑا ایک تنکا اٹھالیا اورکہا کاش میں بھی خش وخاشاک ہوتا، کاش!کاش میں پیدا ہی نہ کیا جاتا، کاش میری ماں مجھے نہ جنتی۔ ( کنز العمال جلد 6: 224) غرض حضرت عمر کا دل ہر لمحہ خوف خداوندی سے لرزاں وترساں رہتا تھا، آپ فرماتے کہ اگر آسمان سے ندا آئے کہ ایک آدمی کے سوا تمام دنیا کے لوگ جنتی ہیں تب بھی مواخذہ کا خوف زائل نہ ہوگا کہ شاید وہ بد قسمت انسان میں ہی ہوں۔ (کنز العمال جلد 6: 224 )اسلام کے اس بطل جلیل کی خدمات کو اللہ تبارک و تعالی عطا فرمائے۔ اور ہمیں بھی حضرت عمر رضی اللہ ہو تعالءعنہ کی طرح خوف خدا اور خشیت الہی نصیب فرمائے آمین یا رب العالمین