تحریک انصاف ہمیشہ ملک کی سب سے بڑی جماعت رہیگی،سید صادق آغا

0 121

انٹرویو/قیوم بلوچ
پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے سابق صوبائی سینیر نائب صدر اور معروف قبائلی شخصیت ” سید صادق آغا ” کسی تعارف یا تعریف کے محتاج نہیں ہیں۔ بلوچستان کی سیاست اور قبائلی معاشرے میں بلند مقام رکھتے ہیں۔ تحریک انصاف بلوچستان کے سابق معروف رہنما ” سید بسم اللہ آغا مرحوم” کے چھوٹے بھائی ہیں۔ ان کا شمار عمران خان کے قابل اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ سیاست میں ہر وقت متحرک رہنے والے سید صادق آغا قومی صوبائی بین الاقوامی حالات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ ہم نے ان سے خصوصی نشست کا اہتمام کیا جس کی تفصیل پیش خدمت ہے۔
سوال ۔۔۔ آغا صاحب ۔ عمران خان اور تحریک انصاف کی تاریخ کے بارے میں قارئین کو بتائیں۔۔؟
جواب ۔۔ عمران خان پاکستان کے سابق وزیر اعظم، پاکستان تحریک انصاف (PTI) کے بانی اور چیئرمین، کرکٹ کی دنیا کے لیجنڈ، اور ایک سماجی کارکن ہیں۔ 5 اکتوبر 1952ء کو لاہور میں پیدا ہوئے، عمران خان نے اپنی زندگی کے ابتدائی حصے میں کرکٹ میں نمایاں کامیابیاں حاصل کیں اور 1992ء میں پاکستان کو پہلی بار کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان کی کرکٹ کیریئر اور عالمی سطح پر پہچان نے انہیں پاکستانی عوام میں خاص مقام دیا۔
1996ء میں عمران خان نے “پاکستان تحریک انصاف” (PTI) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد پاکستان میں انصاف، بدعنوانی کے خلاف جنگ اور ایک فلاحی ریاست کا قیام تھا۔ ابتدا میں پارٹی کو خاص پذیرائی نہ مل سکی، لیکن عمران خان نے اپنے عزم کو برقرار رکھا اور 2010ء کی دہائی میں ان کی مقبولیت میں نمایاں اضافہ ہوا۔ 2018ء میں ان کی جماعت نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی اور وہ پاکستان کے 22ویں وزیر اعظم بنے۔ عمران خان نے وزیر اعظم کے طور پر کرپشن کے خلاف سخت اقدامات اٹھائے، مختلف فلاحی منصوبے متعارف کروائے، جیسے “احساس پروگرام” جو کہ غریب طبقے کے لئے فلاحی اور معاشی امداد فراہم کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔ انہوں نے صحت کے شعبے میں بھی اصلاحات کیں اور یونیورسل ہیلتھ کوریج (صحت انصاف کارڈ) جیسے منصوبے شروع کیے۔ عمران خان نے “نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم” کے ذریعے عوام کو سستے گھروں کی فراہمی کا بھی وعدہ کیا۔ خارجہ پالیسی میں عمران خان نے پاکستان کے عالمی امیج کو بہتر بنانے کی کوشش کی، خاص کر بھارت کے ساتھ تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر عالمی سطح پر آواز بلند کی۔ وہ افغانستان میں امن اور خطے میں استحکام کے حوالے سے بھی سرگرم رہے۔ چین کے ساتھ معاشی تعلقات اور سی پیک منصوبے کو فروغ دیا اور ترکی و سعودی عرب جیسے ممالک کے ساتھ بھی تعلقات مضبوط کیے۔ عمران خان کی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا، جن میں ملک کی کمزور معیشت، قرضوں کا بوجھ، اور مہنگائی جیسے مسائل شامل تھے۔ ان کی پالیسیوں پر ملا جلا ردعمل آیا؛ بعض طبقوں نے ان کی کارکردگی کو سراہا جبکہ دیگر نے ان پر ناکافی اقدامات کا الزام لگایا۔ 2022ء میں ان کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی گئی اور وہ وزارت عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے، جس کے بعد انہوں نے حکومتی تبدیلی کو “امریکی سازش” کا حصہ قرار دیا۔وزارت عظمیٰ سے ہٹنے کے بعد عمران خان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کی اور ملک میں نئے انتخابات کا مطالبہ کیا۔ ان کے حامی انہیں پاکستان کا ایک مخلص رہنما اور کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے والا سمجھتے ہیں۔ البتہ ان پر بھی مختلف مقدمات اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے۔عمران خان کی شخصیت میں مستقل مزاجی، عزم اور خود اعتمادی نمایاں ہیں۔ وہ اپنی زندگی میں کامیابیاں حاصل کرنے کے باوجود ہمیشہ نئے چیلنجز کے لئے تیار رہے ہیں۔ کرکٹ سے لے کر سیاست تک، عمران خان نے ہر میدان میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ ان کی زندگی کی یہ خصوصیات پاکستانی عوام کے لئے مثال ہیں اور وہ اب بھی ملک کے سب سے مقبول سیاسی شخصیت ہیں۔
سوال۔۔۔ پاکستان تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا مقصد کیا ہے، اور اس کا عوام پر کیا اثر پڑ رہا ہے؟

جواب ۔۔۔۔۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک کا بنیادی مقصد پاکستان کے عوام کے حقوق کے لئے آواز بلند کرنا ہے اور قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔ اس تحریک کا مقصد عوام کو ایک مستحکم اور انصاف پسند نظام فراہم کرنا ہے جہاں حکومت عوامی مفادات کو ترجیح دے۔ اس کے ساتھ، عمران خان کی رہائی اور عدلیہ کی آزادی کا بھی اہم مسئلہ ہے، کیونکہ موجودہ حکومت انتقامی کارروائیوں میں ملوث ہے۔ اور عمران خان کو ایک سازش کے تحت سیاست سے باہر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سوال۔۔۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان پر مقدمات کو آپ کیسے دیکھتے ہیں؟ کیا یہ سیاسی انتقام ہے؟
جواب ۔۔۔۔ عمران خان کی گرفتاری اور ان کے خلاف جاری مقدمات واضح طور پر سیاسی انتقام کا ایک حصہ ہیں۔ ان پر الزامات اور قانونی کارروائیوں میں شفافیت نہیں دکھائی دیتی اور زیادہ تر کیسز میں قانونی ضوابط کا خاطر خواہ احترام نہیں کیا گیا۔ اس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ حکومت عمران خان کو سیاسی منظر نامے سے باہر رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے۔ یہ ایک ایسی صورتحال ہے جس میں عوام کا عدالتی نظام پر اعتماد کم ہو رہا ہے۔
سوال۔۔۔۔۔ حکومت کی ان کارروائیوں کا تحریک انصاف کے کارکنان اور عوام پر کیا اثر پڑا ہے؟
جواب۔۔۔۔ حکومت کی ان کارروائیوں سے تحریک انصاف کے کارکنان میں مزید جوش اور اتحاد پیدا ہوا ہے۔ ان کے حوصلے بلند ہوئے ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ متحرک نظر آ رہے ہیں۔ عوام میں بھی اس صورتحال کے باعث بیداری آئی ہے اور وہ انصاف کے لئے اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ یہ اقدامات حکومت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں کیونکہ یہ عمل عوامی حمایت کو بڑھا رہا ہے اور لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کر رہا ہے۔
سوال ۔۔۔۔۔۔ آپ کے خیال میں عمران خان کی رہائی کے لئے کیا اقدامات کیے جانے چاہئیں؟
جواب ۔۔۔۔۔ عمران خان کی رہائی کے لئے ایک قانونی اور منصفانہ عمل اپنانا ضروری ہے۔ عدلیہ کو مکمل آزادی کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ان کے کیسز کی شفافیت کو یقینی بنانا چاہیے۔ پارلیمنٹ اور حکومت کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس معاملے کو سیاسی انتقام سے الگ رکھنا چاہیے۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر عدالتی نظام آزادانہ طریقے سے کام کرے تو عمران خان کے ساتھ انصاف کیا جائے گا اور وہ جلد عوام کے درمیان ہوں گے۔
سوال۔۔۔۔ عمران خان کی رہائی کیلئے احتجاجی تحریک کے دوران حکومت کی طرف سے ہونے والے اقدامات کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب۔۔۔۔ حکومت کی جانب سے احتجاج کو روکنے کے لئے مختلف سخت اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ جیسے کارکنان کی گرفتاریاں، ریلیوں پر پابندیاں اور جلسوں میں رکاوٹیں۔ یہ سب اقدام جمہوری اصولوں کے خلاف ہیں۔ عوام کا حق ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی حمایت میں پرامن احتجاج کریں اور اپنی رائے کا اظہار کریں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایسے اقدامات سے گریز کرے جو عوام کے حقوق اور آزادی پر پابندی لگاتے ہیں۔
سوال۔۔۔۔آپ کے نزدیک مستقبل میں تحریک انصاف کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
جواب۔۔۔۔ تحریک انصاف کو ایک منظم اور پرامن احتجاجی تحریک جاری رکھنی چاہیے۔ قانونی جدوجہد کے ساتھ ساتھ عوام میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ پارٹی کو چاہیے کہ وہ سیاسی مکالمے کے ذریعے اپنے مطالبات کو مؤثر طریقے سے پیش کرے اور قانونی نظام کو اعتماد میں لے۔ عوامی حمایت اور قانونی جدوجہد کا امتزاج ہی تحریک انصاف کے لئے مستقبل میں کامیابی کی راہیں ہموار کر سکتا ہے۔
سوال ۔۔۔۔۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ عمران خان دوبارہ سیاست میں فعال کردار ادا کر سکیں گے؟
جواب۔۔۔۔ عمران خان کے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اور ان کی مقبولیت میں وقت کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔ اگر انہیں شفاف قانونی طریقے سے رہائی ملتی ہے اور وہ دوبارہ آزادانہ طور پر سیاست میں حصہ لیتے ہیں تو یقینی طور وہ ایک بار پھر سب سے بڑے رہنما کے طور پر سامنے آئیں گے۔ عوامی حمایت اور ان کے اصولی موقف کے باعث وہ دوبارہ سیاست شہنشاہ بنیں گے۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک عوامی حقوق اور انصاف کے لئے ہے۔ ان کے مطابق، عمران خان پر مقدمات اور حکومت کی انتقامی کارروائیاں غیر منصفانہ ہیں۔ تحریک انصاف کو پرامن اور منظم احتجاج جاری رکھنا چاہیے اور قانونی طریقوں سے اپنے مطالبات کو اجاگر کرنا چاہیے تاکہ عوامی حمایت کے ساتھ انصاف کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔
سوال ۔۔۔ آپ بلوچستان کی نمائندگی کرتے ہیں اور ایک قبائلی شخصیت بھی ہیں۔ آپ کے خیال میں بلوچستان کے مسائل کی بنیادی وجوہات کیا ہیں؟

جواب۔۔۔۔ بلوچستان کے مسائل کی جڑیں کافی گہری ہیں۔ ایک اہم وجہ مرکز اور بلوچستان کے درمیان اعتماد کا فقدان ہے۔ بلوچ اور پشتون عوام کو عرصے سے احساس ہے کہ ان کے وسائل کا مناسب استعمال نہیں ہورہا، اور ترقیاتی کاموں میں انہیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ وفاق اور بلوچستان کے درمیان سیاسی، اقتصادی اور سماجی معاملات کو متوازن کرنے کی ضرورت ہے۔
سوال ۔۔۔۔۔ مرکز کی پالیسیوں پر آپ کی کیا رائے ہے؟ کیا وفاق نے بلوچستان کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوئی مثبت قدم اٹھایا ہے؟
جواب۔۔۔ وفاق نے کچھ اقدامات کیے ہیں، لیکن اکثر ان اقدامات کی پیروی میں تسلسل نہیں ہوتا۔ یہاں وسائل کی تقسیم کا مسئلہ بھی ہے، بلوچستان کو اس کے وسائل کا پورا حصہ نہیں ملتا۔ نتیجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے لوگ بنیادی سہولیات جیسے صحت، تعلیم اور روزگار سے محروم رہتے ہیں۔ حکومت کو بلوچستان کے مسائل کے حل میں سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے اور ان مسائل پر قومی سطح پر باقاعدہ توجہ دینی ہوگی۔
سوال۔۔۔۔ وفاقی حکومت اور بلوچستان کی حکومت کے درمیان تعلقات کیسے ہیں؟ کیا اس تعلق میں بہتری آئی ہے؟

جواب۔۔۔۔ تعلقات میں بہتری اپنی جگہ مکمل ہم آہنگی اب بھی ایک چیلنج ہے۔ اکثر وفاقی حکومت بلوچستان کے معاملات کو نظر انداز کر دیتی ہے یا پھر ان میں سطحی دلچسپی لیتی ہے۔ بہتر تعلقات کے لئے ضروری ہے کہ وفاق بلوچستان کی حکومت کے ساتھ براہِ راست رابطے میں رہے اور ان کی ضروریات کو سمجھنے کی کوشش کرے۔
سوال۔۔۔ وسائل کی تقسیم کے حوالے سے بلوچستان کی کیا مشکلات ہیں اور اس کا حل کیسے نکالا جا سکتا ہے؟
جواب۔۔۔۔ بلوچستان معدنیات، تیل اور گیس سے مالا مال ہے، لیکن ان وسائل کا زیادہ تر فائدہ وفاقی سطح پر اٹھایا جاتا ہے، اور صوبے کو اس کا مناسب حصہ نہیں ملتا۔ ہم چاہتے ہیں کہ وسائل کی تقسیم میں بلوچستان کو اس کا جائز حق دیا جائے، اور صوبے کے اندرونی ترقیاتی منصوبے مکمل کرنے کے لئے مناسب فنڈز فراہم کیے جائیں۔ مزید برآں، بلوچستان کے نوجوانوں کو ان وسائل کی دیکھ بھال اور انڈسٹری میں روزگار کے مواقع فراہم کرنا بھی ضروری ہے۔
سوال۔۔۔۔ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے مسائل کے حل کے لئے آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب۔۔۔۔ بلوچستان میں تعلیم اور صحت کے شعبے انتہائی پسماندگی کا شکار ہیں۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا حل یہ ہے کہ بنیادی سطح پر تعلیمی ادارے اور صحت کے مراکز قائم کیے جائیں اور ان میں عملے کی کمی کو پورا کیا جائے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہر بچے کو معیاری تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملے اور ہر فرد کو صحت کی سہولیات میسر ہوں۔
سوال۔۔۔۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بلوچستان کے لیے کچھ مثبت تبدیلیاں لانے کی کوشش کی؟
جواب۔۔۔ تحریک انصاف کی حکومت نے کچھ کوششیں کیں، لیکن بدقسمتی سے یہ کافی ثابت نہیں ہوئیں۔ سیاسی بے یقینی اور مختلف چیلنجز کے سبب بلوچستان کو وہ فوائد نہیں مل سکے جس کا وعدہ کیا گیا تھا۔ ہم نے کوشش کی کہ صوبے کے مسائل کو وفاقی سطح پر اجاگر کریں، لیکن ان کوششوں میں مزید سنجیدگی کی ضرورت تھی۔
سوال۔۔۔ آپ کے خیال میں، بلوچستان میں قیامِ امن کیسے ممکن ہے؟
جواب ۔۔۔۔ قیامِ امن کے لیے ضروری ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے اور ان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر بات کی جائے۔ وفاق کو صوبے کے پشتون اور بلوچ عوام کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہنا چاہیے اور مسائل کا حل تلاش کرنے میں مقامی رہنماؤں اور قبائلی شخصیات کو شامل کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ، نوجوانوں کے لئے روزگار کے مواقع پیدا کرنے سے بھی امن و امان میں بہتری آ سکتی ہے۔
سوال۔۔۔۔ بلوچستان کی ترقی میں قبائلی سرداروں کا کیا کردار ہونا چاہیے؟
جواب۔۔۔ قبائلی سردار بلوچستان کی روایات اور سماجی ڈھانچے میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔ سردار اپنے علاقے کے لوگوں کی آواز بن سکتے ہیں اور انہیں ترقیاتی منصوبوں میں شامل کر سکتے ہیں۔ یہ سردار وفاق اور صوبے کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر سکتے ہیں، اور ان کی مدد سے ہم اپنے مسائل کو بہتر طریقے سے اجاگر کر سکتے ہیں۔
سوال۔۔۔ آپ بلوچستان کے مستقبل کو کیسے دیکھتے ہیں؟
جواب۔۔۔ میں بلوچستان کے مستقبل کے بارے میں پُرامید ہوں، لیکن یہ اسی وقت ممکن ہے جب بلوچستان کے عوام اور حکومت مل کر صوبے کی ترقی کے لئے کام کریں۔ ہمیں وفاق سے اپنے حقوق اور وسائل حاصل کرنے کے لئے مشترکہ طور پر کوششیں جاری رکھنی ہوں گی اور صوبے کی ترقی کے لئے ایک جامع حکمت عملی بنانی ہوگی۔ بلوچستان کے مسائل کی بنیادی وجوہات مرکز سے مناسب رابطے کا نہ ہونا اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کا فقدان ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان کے ساتھ برابری کی بنیاد پر معاملات کو حل کرے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے زیادہ موثر اقدامات اٹھائے۔بلوچستان کے وسائل اور لوگوں کو مواقع فراہم کر کے ترقی کی راہیں ہموار کی جا سکتی ہیں۔
سوال ۔۔۔ آغا صاحب ۔۔
آپ کے نزدیک بلوچستان میں پارٹی کیلئے کس رہنما کی خدمات قابل زکر ہیں۔۔؟
جواب ۔۔۔ سب سے پہلے میں اس رہنما کا زکر کرنا چاہونگا ۔جھنوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا پی،ٹی،ائی کو بنا رکھا تھا۔ سید بسم اللہ آغا ( مرحوم ) کیلئے سب کچھ عمران خان اور پی،ٹی،ائی تھا۔ ان کی پارٹی کیلئے خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ جس کا اعتراف خود عمران خان بھی کرتے ہیں۔شب و روز محنت کی وجہ سے وہ جان لیواء بیماری کا شکار ھوئے۔ اس کے بعد قاسم خان سوری کی خدمات اور قربانیوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے اس وقت سے بلوچستان میں پارٹی کو سنھبالا۔ جب کوئی پی،ٹی،ائی کے قریب بھی آنے کیلئے تیار نہ تھا۔اسی طرح داؤد شاہ کاکڑ، سابق کونسلر صلاح الدین خان اچکزئی ،نور خان خلجی ، سردار زین العابدین خلجی، پرنس نزیر اچکزئی، جہانگیر رند، پارٹی کیلئے جو کام کررہے ہیں۔اس کی مثال نہیں ملتی۔ اگر میں ناموں کیساتھ زکر کرتا رھوں۔ تو بہت درکار ھوگا۔ مختصر یہ کہ پی،ٹی،ائی بلوچستان کا ہر رہنما،ہر کارکن، اپنی مثال آپ ہے۔انہی کی وجہ سے آج بلوچستان میں تحریک انصاف بہت بڑی قوت ہے۔میں سب کو خراج تحسین پیش کرتا ھوں۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.