میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ کی بد حالی
سروے رپورٹ نوراحمد راہی
دنیا پر وقار طریقے سے اکیسوی صدی میں داخل ہو چکی ہے اور مہذب دنیا چاند پر ایک نئی انسانی دنیا آباد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہیں اور تیز رفتار ترقی نے انسانی معاشرے کو نئی جدت دی ہے لیکن بدقسمتی سے زمینی دنیا میں وطن عزیز پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے مضافاتی علاقہ سریاب میں ایک ایسا علاقہ ہے جو زندگی کی تمام تر سہولیات سے محروم ہیں جسے دنیا میر گاہی خان لہڑیاسٹریٹ کے نام سے جانتی ہے کوئٹہ کے مشہور و معروف گاہی خان چوک سے 100 فٹ کے فاصلے پر واقع میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ میں داخل ہوتے ہی ایسا گمان ہونے لگتا ہے
جیسے آپ 14 ویںصدی میں داخل ہو گئے ہو میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ میں 200 سے زائد گھرانے ہیں جس میں ہزاروں انسان ارباب اختیار کے رحم و کرم پر ہیں میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ کی آبادی کوئٹہ کی قدیم ترین آبادیوں میں سے ایک ہے اور یہ گلی معروف سیاسی و سماجی شخصیت میر گاہی خان لہڑی کے نام سے منسوب ہے ملک میں عام انتخابات ہوںیا بلدیاتی نمائندوں کا چناو¿ میر گاہی خان لہڑی کی رہائش گاہ پر امیدواروں کا تابندہ رہتا ہے اور ووٹ کے لیے ہزار قسم کے وعدے اور دعوے بھی کرتے ہیں لیکن انہی میں سے کامیاب ہونے والے امیدوار پھر یہ بھول جاتے ہیں کہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ بھی میں انسان رہتے ہیں جنھیں زندہ رہنے کے لیے بنیادی ضروریات فراہم کرنا ضروری ہے اس علاقے کے عوام نے اپنے مسائل کے حل کے لیے ہر فورم پر ہمیشہ آواز بلند کی ہے
ہ ہم نے داد رسی کی نیت سے اور علاقے کے عوام کی آواز ارباب اختیار تک پہنچانے کے لیے علاقے کا خصوصی سروے کیا جس کے دوران علاقے کی عوام کا جم غفیر ہمارے اردگرد جمع ہر ایک اپنی فریا بلند سنانے لگا علاقے کے ایک سفید ریش بزرگ شہری حاجی محمد عثمان نے کہا کہ اس علاقے کی آبادی کو سو سال سے زائد کا عرصہ ہو چکا ہے مگر اس کے گلی لوگ آج تک پینے کی پانی کی بنیادی سہولت سے محروم ہے علاقے کی آبادی کی اکثریت غریبوں پر مشتمل ہے لیکن وہ پرائیوٹ پانی کے ٹینکر خرید نے پر مجبور ہے ۔ اکثر گھرانے ایسے ہیں جن میں پرائیوٹ پانی کے ٹینکر خرید نے کی سکت بھی نہیں علاقے کے ایک رہائشی شاہ فیصل مینگل اور شازیب لہڑی نے سروے ٹیم کو بتایا کہ گلی کی صورتحال اپ کے سامنے ہیں میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ اور محلہ میر گاہی خان لہڑی گندگی کے ڈھر میں تبدیل ہو چکا ہے یوں لگتا ہے کہ جیسے پورے سریاب کا کچرہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ اور میر گاہی خان لہڑی محلہ میں لا کر ڈال دیا گیا ہے جگہ جگہ گندگی کے ڈھر لگے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں انہوں نے کہا کہ میں نے سرکاری سطح پر کبھی اس گلی کی صفائی ہوتے ہوئے نہیں دیکھا
خصوصی سروے کے موقع پر ہم نے علاقے کے معتبرین معروف سیاسی سماجی و قبائلی شخصیت میر گاہی خان لہڑی اور انکے فرزند میر شیر خان لہڑی سے خصوصی ملاقات کی اور ان سے مسائل پر بات چیت کی اس موقع پرمیر گاہی خان لہڑی نے کہا کہ یہ علاقہ مسائلستان بن چکا ہے یہاں کے غریب لوگوں کے سوتیلی ماں جیسا سلوک رواءرکھا گیا ہے انہوں نے کہا کہ گیس سریاب کے عوام کے لئے ایک سہنا خواب بن چکا ہے جیسے ہی سردیوں کا موسم شروع ہوا سریاب کے علاقوں سے گیس مکمل طور پر غائب ہو گیا ہے لوگوں نے پرانے وقتوں کے اسٹوو جلانا شروع کر دیے ہیں
اکیسوی صدی ایٹمی پاکستان خوشحال بلوچستان کے دعوے اور صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں لوگ لکڑیاں اور کوئلہ جلانے پر مجبور ہیں انہوں نے کہا کہ ہرسال دعواہ کیا جاتا ہے کہ گیس پریشر دورست کیا جائے گا مگر عوام کو طفیل تسلیوں پر رکھا گیا ہے عملی طور پر کچھہ نہیں کیا جا رہا ہے کوئٹہ اس وقت شدید سردی کی لپیٹ میں ہیں اور گھروں میں گیس کے چولے ٹھنڈے پڑے ہوئے ہیں سریاب کے مختلف علاقوں میں گیس برائے نام بھی موجود نہیں سریاب کے عوام نے خاص طور پر خواتین نے بھی بڑی تعداد میں روڈوں پر نکل ائی اور بھر پور احتجاج کی مگر اج تک گیس پریشر تو کیا کیس کی بو بھی سونگے کے لیے نہیں ملی انہوں نے کہ ہم نے بیسو مرتبہ ارباب اختیار سے اپیل کی ہے کہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ کے لوگوں کو بھی جینے کا حق ہے ہمارے ساتھ وعدے قول اقرار کیے جاتے ہیں لیکن پھر فراموش کیے جاتے ہیں ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم عوام کی رہنمائی کریں اور انہیں سڑکوں پر لائیںاور اس وقت تک بیٹھے رہے جب تک گیس پریشر کا مسلہ حل نہ ہو۔
معروف سیاسی سماجی وقبائلی شخصیت میر شیر خان لہڑی نے سروے ٹیم سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ کوئٹہ کا پسماندہ علاقہ بن چکا ہے اس علاقے کی عوام تمام تر بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں آپ کے سامنے ہیں جسے دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہمیں گناہ کی سزا کے طور پر یہاں رکھا گیا ہے بارش کے دنوں میں یہ گلی جھیل کامنظر پیش کرتاہے سڑک کی ٹوٹ پھوٹ کا عالم یہ ہے کہ یہاں پیدل چلنا محال ہے میر شیر خان لہڑی نے کہا کہ ایٹمی ملک کے شہری ہونے کے باوجود ہمیں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے ہمارے علاقے میں عوام کیلئے بجلی بھی ایک درد سر بن چکا ہے چوبیس گھنٹوں میں بمشکل پانچ سے چھ گھنٹے بجلی آتی ہے اور کبھی کھبار پورا دن پوری رات ہم بجلی سے محروم رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ گلی میں کبھی غلطی سے بھی اسٹریٹ لائٹس کی تنصیب نہیں کی گئی
رات کے گھپ اندھیرے میں یہ علاقہ شہر خاموشاں یعنی قبرستان کا منظر پیش کرتا ہے مختصر یہ کہ ہم مکمل طور پر لاوارث ہو چکے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں میر شیر خان لہڑی نے کہا کہ ظلم و زیادتی کی انتہاءیہ ہے کہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ اور گاہی خان محلہ میں نکاسی آب کا کوئی انتظام نہیں گھروں کا پانی گلیوں میں آ جاتا ہے ہے جسے خارج کرنے کا کوئی انتظام نہیں اور پانی جمع ہو کر تالاب بن جاتا ہے اور دوبارہ گھروں میں داخل ہوجاتا ہے جس سے علاقے کے مکینوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے میر شیر خان لہڑی نے مزید کہا کہ یہ دونوں گلیاں تین سو سے پانچ سو گھرانوں پر مشتمل ہے
مگر یہاں سرکاری ٹیوب ویل کا کوئی تصور ہی نہیں ہے یعنی یہاں کبھی ٹیوب ویل لگایا ہی نہیں گیا جس کی وجہ سے یہاں کے مکین پانی سے مکمل محروم ہیں انہوں نے کہا کہ ان کی کثیر آبادی والی دونوں گلیوں میں اگر کچرہ دان رکھے جائیں تو صفائی کی صورتحال کسی حد تک کنٹرول ہو سکتی ہے کچرہ دان نہ ہونے کی وجہ سے علاقے کے مکین مجبوراً اپنا کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکتے ہیں جو جمع ہو کر اب کچرے کے بڑے ڈھیر میں تبدیل ہوچکے ہیںمیر شیر خان لہڑی نے کہا کہ سب سے قابل افسوس امر یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کے نمائندے اسی علاقے کے ووٹوں سے کامیاب ہوتے ہیں یعنی ہمارے ووٹ کسی بھی امیدوار کو کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں مگر اقتدار کے ائرکنڈیشن کمروں تک پہنچنے کے بعد نمائندے ہمارے علاقے کو فراموش کردیتے ہیں انہوں نے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان اور دیگر ارباب اختیار سے اپیل کی ہیں کہ میر گاہی خان لہڑی اسٹریٹ اورمیر گاہی خان محلہ کی بد حالی کو مد نظر رکھتے ہوئے خصوصی گرانٹ کا اعلان کریں
[…] پالیسی اور عدم دلچسپی کے باعث سے ژوب شیرانی مسائل سے مسائلستان بن چکے ہیں حکومت سابقہ منصوبوں پر بار بار فوٹو سیشن […]