احساس بڑی شہے بھیا!
یوسف سعدی (خرام آہو)
دنیا یکسر بدل گئی ہے۔ پرایوں کی عادات و اطوار ہمارے اندر آچکی ہیں۔ جوں جوں ہمارا سماج جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لئے آگے کا سفر کاٹ رہا ہے۔ توں توں بےحسی کی لاعلاج بیماری ہمارے ارد گرد ڈیرہ ڈالتی جارہی ہے۔ اس مرض بد سے چھٹکارا ناممکن تو نہیں البتہ مشکل ضرور ہے۔ وجہ اس کی یہی، جو دل کو بھی بھاتی ہے۔ کہ ہم احساس کی جانب اپنی توجہ کو مبذول کرانے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خود کو زحمت دئے بغیر سارے معاملات کو سلجھائے۔ تھوڑی سی تکلیف بھی اپنی نرم و ملائم جلد کو دینا بھی ہمیں گوارا نہیں۔ ذہن کو تھوڑا لڑانا بھی ہمارے بس سے باہر ہوگیا ہے۔ دو چار ذمہ داریاں کندھوں پر آنے سے ہماری کمر میں دراڑیں پڑتی ہیں۔ اور ماتھے پر تب بل نمودار ہوجاتے ہے، جب کوئی چیخ چیخ کر ہمیں اپنے فرائض سر انجام دینے کا احساس دلائے۔ ہم دوسروں کو معمولی سی باتوں پر کوسنے کی کورس تو کرلی ہیں۔ مگر مجال ہے کہ دوسرے کے آئینہ دکھانے سے ہماری گردن سے سریا نکل جائے۔ ہم تمام خامیوں سمیت بھلے ہونے کا خواب دیکھتے ہیں۔ جبکہ اگلے کو سب خوبیوں کے باوجود انسان کہنے کو تیار نہیں ہوتے۔ اس آپی دھاپی سے اللہ کا پناہ۔۔۔
جب احساس وحشی ہوجاتا ہے تو انسان گفتنی و ناگفتنی کے حدود سے ورے ہر وہ کام کرجاتا ہے۔ جس سے ایک حساس شخص کو شرافت کے واسطے متلی آجاتی ہے۔ کیونکہ ایک مہذب معاشرے کی بنیاد احساس کے ستونوں کے ساتھ ہی مضبوط ہوسکتی ہے۔ تب آدمی اپنے سے زیادہ دوسرے کا خیال رکھنے کو ترجیح دینے لگ جاتا ہے۔ چلتی راہ میں دو منٹ کی دیر ہونے کے سبب کسی کا راستہ روک کر اسے پریشان نہیں کرتا۔ بلکہ پہلے اس کو راستہ دے جاتا ہے۔ کسی کے جذبات سے کھیل کر اسے تکلیف سے دو چار کرنے سے کترائے گا۔ اپنے ماحول میں سب کو یکسانیت کے ترازو میں تولنا ، اس کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ بچہ کے ساتھ بچہ ، جوان کے ساتھ جوان اور بزرگ کے ساتھ بزرگ بننے کی جائیداد اس کو وراثت میں دی گئی ہوتی ہے۔ بھری مجلس میں کون سے لفظ کا پتہ کب پھینکنا ہے؟ یہ فن اس کے پاس گروی کے طور پر رکھا ہوا ہوتا ہے۔ ہر نئے چہرے کو دیکھتے ہی اس کے مزاج کے عین مطابق چلنا ، چل کر اس کو کسی شکایت کا موقع نہ دینا۔ یہ اس کے شب و روز کے معمولات میں داخل ہوتا ہے۔ ہمہ وقت سب کے موڈ کو چھاننا اور چھان کر سب کو بیک وقت چلانا ، یہ اس کے گھر کا مہمان ہوتا ہے۔ ایسا کامل مکمل شخص ہی قوم و ملت کے ماتھے کا جھومر ہوکے ہر عام و خاص کے دلوں پر بادشاہت کرتا رہے گا۔
بنا احساس کے انسان برائے نام انسان ہوتا ہے۔ بنا احساس کے محبت ، الفت اور چاہت فقط دھوکہ ہے۔ بنا احساس کے دوستی منافقت کا روپ دھار لیتی ہے۔ بنا احساس کے رشتے عذاب کی مانند ہیں۔ بنا احساس کے اخوت بمثل عداوت ہر لحظہ تاک میں بیٹھ کر بدنامی کا سبب بنتی ہے۔ احساس کی کمی ہو ، تو بندہ ہر دوسرے کے ساتھ بمثل غصیل ہر چوراہے پر الجھ پڑتا ہے۔ ایسے شخص کے ساتھ سفر کرنا عذاب سے کم نہیں ہوتا۔ کیونکہ لاپرواہ کو اپنے علاوہ سارے کیڑے مکوڑے نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی ذات کو مقدم رکھتے ہوئے اپنے ماتحت ، سرپرست ، ہمسفر ، ہمنوا اور ہمنشین کو ثانوی حیثیت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ مذکورہ صفات کے متحملین کے ساتھ ساتھ بےحس انسان اپنے محسن کو بھی پس پشت ڈال کر ذاتی مفاد کو پورا کرنے کا خواب دیکھتا ہے۔ جس نے اسے ہر قسم کی سہولیات فراہم کی ہو ، اس کی خاطر اپنی تمام تر صلاحیتیں صرف کی ہو اور اس کو پاو ¿ں پر کھڑا کرتے کرتے اپنی نیند تک قربان کی ہو۔ مگر یہ ان سارے احسانوں کے بدلے میں انھیں لاپرواہی ، نظر اندازی اور بےرخی کر پروانہ ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ یہ سوچے بنا کہ ہر مشکل میں میرا ہاتھ اسی شخص نے تو بٹایا تھا۔ اسی کے طفیل تو آج میں اس قابل ہوا ہوں۔ کہ اہل دنیا کے ساتھ معاملات طے کررہا ہوں۔ قبل اس کے کوئی مجھ سے پیاز کا نرخ تک نہیں پوچھتا تھا۔
کہاوت مشہور ہے کہ “فلاں اس قدر سخی ہے۔ اپنے منہ کا نوالہ دوسرے کے منہ میں دے جاتا ہے۔ کھانے کے دوران اس کے سامنے گرم روٹی رکھی ہوئی ہو ، تو اس کو بھی دوسرے کے سامنے رکھ جاتا ہے”۔ شدید قسم کی پیاس لگنے کی صورت میں بھی ایک گلاس پانی کو بھی اگلے کے لئے آگے کرتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ زیادہ حساسیت بھی انسان کو کھا جاتی ہے۔ با احساس انسان ہر آن طعن و تشنیع کی زد میں ہوتا ہے۔ وہ دکھ جھیل کر بھی اپنے ماسوا کو سکھ پہنچانے کا خواہاں ہوتا ہے۔ خود تکلیف سہہ جاتا ہے مگر کسی پر آنچ آنے کو برداشت نہیں کرتا۔ خود موم کی طرح پگھل کر انسانیت کو بچانے کی فکر میں مفکر بنا جاتا ہے۔ نت نئی مصیبتیں ہر نئی صبح کو اس کا استقبال کرتی ہیں۔ مگر ایک مرتبہ پھر سے وہ نئے ولولے کے ساتھ تازہ دم ہو کر میدان عمل کا رخ کرتا ہے۔ سب کچھ بھول بھال کر سب کے ساتھ سب کچھ کا تعاون کرتا جاتا ہے۔ کس نے کہاں دل دکھایا؟ صرف نظر کیا۔ کس نے سر بازار گالیوں سے دھو ڈالا؟ نہیں دیکھتا۔ بھری محفل میں کس نے عزت کو تار تار کیا؟ اگنور کیا۔ کس کس نے اذیت دے دے کر بار بار رلایا؟ دل پر پتھر رکھ کر بھلا دیا۔ ان سب ہتک آمیز رویوں کے باوجود آگے بڑھتا جاتا ہے اور بڑھتا جاتا ہے فقط بڑھتا جاتا ہے۔
آج دنیا اپنی اسپیڈ کی طرح تیزی کے ساتھ اہل دنیا کو غفلت کی کھائی میں گرانے کو دیوانہ وار بے تاب نظر آتی ہے۔ اگر آپ لوگوں کے در میان موجود ہوں گے۔ تو محسوس کئے جائیں گے۔ معزز سمجھے جائیں گے۔ محترم گردانے جائیں گے۔ جچے تلے مدحیہ کلمات سے پکارے جائیں گے۔ تعریفی القابات سے نوازے جائیں گے۔ آپ کے لئے خصوصی جگہ کا انتخاب بھی ہوگا۔ مگر جوں ہی آپ کا وجود وہاں سے سرک جائے گا۔ تب آپ ہر رطب و یابس کے ذمہ دار ٹھہرائے جائیں گے۔ آپ کے سر پر وہ وہ گناہ تھوپ دئے جائیں گے۔ جن کے متعلق آپ کے فرشتوں کو بھی معلومات نہیں ہوگی۔ یک دم آپ صادق و امین سے میر صادق و میر جعفر بنائے جائیں گے۔ یہ دنیا بڑی بے وفا ہے ، یہ انسان کو ہر اس شءپر اکساتی ہے۔ جن کا چشم تصور نے مشاہدہ نہیں کیا ہے۔ خاکم بدہن اگر آپ کسی موذی مرض میں مبتلا ہوجائیں۔ کسی کام کے نہ رہیں۔ تو آپ کا قریب سے قریب تر عزیز و اقارب آپ سے دور بھاگ کر کنارہ کشی میں عافیت سمجھے گا۔ اس کو دنیا کی رنگینیاں اس قدر بے حس کردیں گی۔ کہ وہ خود کے اور آپ کے بیچ رشتوں کو رتی بھر قدر دینے کو تیار نہیں ہوگا۔
آج کل کے سیاسی منظرنامے کو دیکھ کر تو لالٹین جلانے سے بھی آپ کو احساس نام کی کوئی چیز نہیں ملے گی۔ بمثل عنقائ پرندے کے احساس نما شءدنیا سے ناپید ہوچکا معلوم ہوتا ہے۔ یا پھر کسی جانور کی صورت میں اسے ذبیحہ بنادیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر آپ کسی سے اختلاف رائے رکھیں گے۔ تو اس کی نظر میں آپ فسادی ، انتشاری ، مرتد ، کافر اور واجب القتل ٹھہریں گے۔ اختلاف رائے کو بنیاد بناکر آپ کی عزت و آبرو کا کباڑہ کردیا جاتا ہے۔ کہنے کو ہم جمہوری ملک کے باسی ہیں۔ مگر پتہ تب چلتا ہے جب آپ ایک مسئلہ کے متعلق کسی کی رائے کے مقابلے میں دوسری رائے رکھ لیں۔ پھر ہر حوالے سے آپ کو سرٹیفکیٹ بانٹنے والے مل جائیں گے۔ اس چیز کا احساس ہی نہیں ہوگا۔ کہ ہم اجتہادیات میں آمنے سامنے ہوگئے ہیں۔ میرا مو ¿قف حرف آخر ہوسکتا ہے اور نہ ہی میرے نظریاتی حریف کا مو ¿قف۔ ہمارے ہاں تحریکیں چلتی ہیں۔ “آزادی اظہار رائے” کے نام سے ، “تحریک بحالی جمہوریت” کے عنوان سے ، “ایم آر ڈی” اور “پی ڈیم ایم” جیسے جمہور پسندانہ نعروں کے ساتھ۔ مگر سب برائے نام۔۔۔ جب اپنی “انا” کا موقع آجاتا ہے تو ہر ایک آمر کی شکل میں ابھر کر سامنے آتا ہے۔ وہ محسوس ہی نہیں کرتا کہ “ڈیمو کریسی” میرا نعرہ ہے۔ ایک مرتبہ پھر سے اس کو یقین دہانی کرانی پڑتی ہے۔ کہ ” احساس بڑی شءہے بھیا!۔