الوداع 2023ء
۔……………….. شیخ فرید
فصیلِ وقت پر ٹنگے کلینڈر کے پنّے پھڑ پھڑا کے رہ گئے اور سال نے یوں کروٹ لی کہ سارا منظر ہی بدل گیا ۔
سرکتے لمحوں ، بیتی گھڑیوں ، اور گزرتے پل اپنے عقب میں کئی واقعات ، حادثات ، سانحات اور خدشات کی ان گنت نقوش چھوڑ گئے ہیں ۔ اب ہم نے اپنا خود احتسابی کے عمل کو فعال کر کے دیکھنا ہے کہ سال 2023ء میں کیا پایا ، کیا کھویا ۔ آئیے ایک تجزیاتی نظر ڈالتے ہیں ۔
پر سال کی طرح پاکستان میں رواں سال کے دوران کئی ہنگامہ خیز واقعات رونما ہوئے، جس نے ملکی سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔
یوں تو رواں سال پاکستانی سیاست میں کئی واقعات رونما ہوئے لیکن یہاں ہم چند اہم واقعات کا ذکر کریں گےرواں سال 14 جنوری کو پنجاب کے وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی نے پنجاب کی 17ویں صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا جبکہ 18 جنوری کو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے خیبر پختونخوا کی 11ویں صوبائی اسمبلی کو تحلیل کیا۔
جس کے بعد سپریم کورٹ کے حکم پر صدر نے الیکشن کمیشن کی تجویز پر پنجاب میں 30 اپریل کو انتخابات کرانے کی منظوری دی تھی جبکہ گورنر خیبر پختو نخوا نے 28 مئی کو صوبے میں الیکشن کرانے کا اعلان کیا تھا تاہم بعد میں وہ اپنے اس اعلان سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔
انتخابی شیڈول جاری کرنے کے باوجود 23 مارچ کو الیکشن کمیشن نے پولیس اہلکاروں کی کمی اور فوجی اہلکاروں کی عدم فراہمی کو جواز بناتے ہوئے پنجاب میں انتخابات 8 اکتوبر تک ملتوی کردیے تھے۔
جس کی پیروی میں گورنر خیبرپختونخوا نے بھی صوبے میں انتخابات کے انعقاد کے لیے 8 اکتوبر کی تاریخ مقرر کردی تھی۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ،جس پر سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی جانب سے 8 اکتوبر کو انتخابات کرانے کا فیصلہ کالعدم قرار دیا اور پنجا اسمبلی کے انتخابات کا شیڈول بحال کرتے ہوئے 14 مئی کو پنجاب میں انتخابات کی تاریح دی۔
آئین کے آرٹیکل (1) 224 کے تحت اگر اسمبلیاں مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل کر دی جائیں تو اس کے بعد 90 دن میں الیکشن کروانے لازم ہیں۔
تاہم تحریک انصاف کی جانب سے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود اب تک ان دونوں صوبوں میں بھی انتخابات نہیں ہو سکے اور اب یہ انتخابات بھی دیگر صوبوں اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے ساتھ ہی منعقد ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔
انتخابات میں التوا کی سرکاری وجہ سابقہ حکومت کی جانب سے نئی مردم شماری کی منظوری بتائی گئی تھی جو مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں دی گئی۔
سابقہ حکومت کا مؤقف تھا کہ الیکشن کمیشن کو ملکی آبادی کے تازہ تخمینے کی بنیاد پر انتخابی حلقوں کی از سر نو حد بندی کرنی ہوگی۔رواں سال مارچ میں پولیس پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کو گرفتار کرنے لاہور میں ان کی رہائش گاہ زمان پارک پہنچی تو وہاں پولیس اور پی ٹی آئی کارکنان کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں۔
پولیس اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے دوران گاڑیاں اور ٹریفک سیکٹر میں سرکاری تنصیبات کافی نقصان پہنچا۔
اس تصادم میں 3 واٹر کینن اور پولیس کی 10 گاڑیوں کو نقصان پہنچایا۔ جبکہ ایک بس کو بھی جزوی نقصان پہنچایا گیا اور واٹر ٹینکر کو مکمل طور پر جلا دیا گیا۔ اس طرح 3 واٹر کیننز کا ساڑھے 58 لاکھ روپے کا نقصان ہوا، جب کہ 42 لاکھ 50 ہزار مالیت کا واٹر ٹینکر مکمل طور پر جلا دیا گیا۔
زمان پارک میں تمام گاڑیوں کا1 کروڑ 10 لاکھ 90ہزار روپے کا نقصان ہوا جبکہ ٹریفک سیکٹر شادمان میں 8 موٹرسائیکلیں بھی جلا دی گئیں جن کی مالیت 23 لاکھ روپے تھی۔
وائر لیس سیٹس اور کمیونیکیشن سسٹم کو 35 لاکھ جبکہ کیمرے، کمپیوٹر سسٹم، چھتریوں کی مد میں 11 لاکھ کا نقصان پہنچایا گیا اور پیٹرول بم کی وجہ سے لگنے والی آگ سے روزنامچے کا 3 سال کا ریکارڈ جل گیا۔مئی 2023 کو سابق پاکستانی وزیر اعظم کو اسلام آباد میں ہائی کورٹ کے باہر سے گرفتار کیا گیا، جس کے بعد ان کی پارٹی نے مظاہروں کی کال دی۔
گرفتاری کے ساتھ ہی اسلام آباد، کراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے ، ملک بھر میں ہوئے پُرتشدد احتجاج کے دوران مشتعل افراد نے فوجی تنصیبات، بشمول کور کمانڈر لاہور کی رہائش گاہ اور پاکستان بھر میں ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا۔
مظاہروں میں شدت آنے کے بعد وزارت داخلہ نے ملک بھر میں موبائل ڈیٹا سروسز معطل کرنے کا حکم دیا اور مختلف علاقوں میں پی ٹی آئی کارکنوں کی گرفتاریاں بھی شروع کر دی گئی۔مئی کو سابق پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتار کے بعد ملک بھر میں ہوئے پُرتشدد احتجاج کے دوران فوجی تنصیبات اور ریاستی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔
جس کے بعد فوج نے اس دن کو ملکی تاریخ کا ایک ’سیاہ باب‘ قرار دیا تھا اور توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عزم کیا ۔
سانحہ 9 مئی کے بعد حکومت نے مزید سخت قدم اٹھاتے ہوئے ریاستی اور فوجی تنصیبات پر حملے کرنے والوں کو پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ سمیت متعلقہ قوانین کے تحت انصاف کے کٹہرے میں لانے کا فیصلہ کیا، اس فیصلے کی قومی سلامتی کمیٹی نے بھی توثیق کی تھی۔
وفاقی حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ 9 اور 10 مئی کے واقعات کی روشنی میں 102 افراد گرفتار کیے گئے اور ان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل شروع کیا گیا ہے، فوجی عدالتوں میں ٹرائل میں جو قصور وار ثابت نہیں ہو گا وہ بری ہو جائے گا۔اگست میں پاکستان میں سال 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں تشکیل پانے والی قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست 2023 کی رات 12 بجے مکمل ہوئی اور اس وقت کے وزیراعظم شہباز شریف نے مقررہ مدت سے قبل ہی نو اگست کو اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
وزیراعظم شہبازشریف کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری صدر مملکت عارف علوی کو ارسال کی گئی اور صدر مملکت کے دستخط کے بعدقومی اسمبلی تحلیل ہو گئی ۔
11 اگست کو گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی ایڈوائس پر صوبائی اسمبلی تحلیل کی۔
12 اگست کو گورنر بلوچستان ملک عبدالوی کاکڑ نے بلوچستان اسمبلی تحلیل کی۔اگست کو نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے ملک کے 8 ویں نگراں وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدے کا حلف اٹھایا، جس کے ساتھ ہی شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکومت ختم ہوگئی ہے۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے نومنتخب نگراں وزیراعظم سے حلف لیا۔
انوارالحق کاکڑ نے 2008 میں (ق) لیگ کے ٹکٹ پرکوئٹہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا لیکن کامیاب ہو سکے، پھر وہ 2013 میں بلوچستان حکومت کے ترجمان رہے اور جب بلوچستان عوامی پارٹی بنی تو ان کے بانی رہنماؤں میں شامل رہے۔
انوار الحق کاکڑ 2018 میں سینیٹر منتخب ہوئے اور وہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی سمندر پار پاکستانی کے چئیرمین بھی رہے۔ بعد ازاں 17 اگست کو جسٹس ریٹائرڈ مقبول باقر نے سندھ کے نگران وزیراعلیٰ کے عہدے کا حلف اٹھایا جبکہ 18 اگست کو علی مردان ڈومکی نے نگران وزیراعلیٰ بلوچستان کا حلف اٹھایا۔اکتوبر 2023 کے دن تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم رہنے والے نواز شریف چار سال کی خود ساختہ جلاوطنی ختم کرنے کے بعد وطن واپس آئے ، ان کی واپسی کا اولین مقصد آئندہ عام انتخابات سے قبل اپنی جماعت ن لیگ کو سیاسی طور پر منظم اور مضبوط کرنا ہے۔ایون فیلڈ کیس میں نواز شریف کو 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ جبکہ العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سات سال قید کی سزا ملی تھی تاہم وہ قید کی سزا ادھوری چھوڑ کر نومبر دو ہزار انیس میں لاہور سے علاج کے سلسلے میں آٹھ ہفتوں کے لیے بیرون ملک گئے تھے۔ نیب نے نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس ، العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس اور فلیگ شپ ریفرنس دائر کئے تھے، واطن واپسی پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے نیب کے العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں قید کی سزا پر نا اہل پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باعزت بری کیا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کورٹ کی سزا کالعدم قرار دے چکی تھی جب کہ فلیگ شپ ریفرنس نیب کی جانب سے واپس لینے پر ختم کردیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے 8 فروری 2024 کو ملک بھر میں عام انتخابات کروانے کا اعلان کر رکھا ہے تاہم چند روز قبل پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کیا۔
لاہور ہائیکور ٹ نے گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کی درخواست پر الیکشن کمیشن کا انتخابات کے لیے بیوروکریسی کی خدمات لینے کا نوٹیفکیشن معطل کر دیا تھا۔
لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے بعد الیکشن کمیشن نے آر اوز، ڈی آر اوز کی تربیت روک دی تھی اور جس سے انتخابات میں تاخیر کا خدشہ پیدا ہوگیا تھا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے ہنگامی بنیادوں پر سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ کی طرف سے الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز (ڈی آر اوز) اور ریٹرننگ آفیسرز (آر اوز) اور دیگر عملے کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن معطلی کا فیصلہ معطل کیا اور الیکشن کمیشن نے آج ہی شیڈول جاری کرنے کا حکم دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔💠۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔