مفتی جان محمد رحمہ اللہ کی خدمات کامختصر جائزہ
کالم نگار: سعداللہ سعدی
سوشل میڈیا پر جیسے ہی نظروں سے یہ خبرگزری کہ( مفتی جان محمد رحمہ اللہ اس جہانِ فانی کو خیرباد کہہ گیے۔)پاوں تلے زمین نکل گئی۔ سر چکرانے لگا۔ آہ وہ خوبصورت چہرہ اب اس دنیا میں نہیں رہا۔ وہ سیاسی ، سماجی ، قومی ، دینی اورعلمی خدمات سرانجام دینے والا دوعظیم دینی درسگاہوں کو بیک وقت چلانے والا نیک دل اور نیک خصلت انسان اب اس تنگ وتاریک دنیا کی ناخوش گوار فضا سے مستفید نہیں ہوگا بلکہ وہ اب اس ابدی جہاں کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوگا جہاں سب کچھ ابدی ہوگا۔
اس خبر نے دلِ بے چین کو اور اضطراب میں ڈال دیا۔ گردشِ ایام کی ناخوشگوار حالات نے دل کوزخمی کردیاتھا اس خبر نے پتھردل کو پارہ پارہ کر دیا۔
آیئے جانتے ہیں کہ کون مفتی جان محمد؟
اس نے کم عرصے میں وہ کونسی عظیم خدمات سرانجام دی ؟ جس کی بدولت وہ بھی تاریخِ اسلام کی ان شہہ سواروں میں اپنا نام لکھ کر گیے جن کے سردار محمدبن قاسم اور صلاح الدین ایوبی ہیں، جن کی عمریں اتنی نہیں جتنے ان کے کارنامے ہیں۔
1980ءمیں حاجی حبیب اللہ صاحب کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا جس کانام مشورے سے جان محمد طے ہوا۔ وہ پشتون قوم کے بڑیچ قبیلے اور بھادرزئی شاخ سے تعلق رکھتے ہیں۔بچہ اپنی ذہانت وفطانت کی لحاظ سے گھر میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا۔ گھرانہ غریب ضرورتھا مگر دینداری میں بھی پیش پیش تھا۔ انہوں نے بچے پردینی تعلیم شروع کی۔تعلیم کی ابتداءمشہورعالم الدین مولاناتیمور شاہ صاحب کے مدرسہ عربیہ منزری پشین سے کی۔ پھر ابتدائی تعلیم جامعہ حقانیہ شالدرہ میں حاصل کی۔ استاذِ خاص مولناعبدالظاہر صاحب معروف بمولوی ماما جن کی شفقت تامہ نے جان محمد کو مفتی جان محمد تک کا سارا سفرطے کر وایا۔
پھرمزید تعلیم کے لیے کھوٹ سبزل چلے گیے وہاں حضرت مولانا نعیم اللہ خان سے سیرابیِ علم حاصل کی۔
نحو اور صرف حضرت مولانا نصراللہ خان صاحب سے پڑھی۔ مزید تشنگیِ علم دور کرنے کے لیے جامعہ دارالعلوم عیدگاہ کبیر والا گیے۔
علمِ تفسیر کی پیاس ابوالفتح مولنا محمدیوسف رحیم یارخان والے کے دریاسے بجھائی۔
سندِ فراغت حاصل کرنے کے لیےجامعہ مخزن العلوم خانپور گیے۔
وہاں خوب سیرابی حاصل کرکے سن 2003ءمیں تخصص فی الافتاءبھی کر کے گھرلوٹ آئے۔
2004ءمیں اپنے علاقے میں مدرسہ عربیہ صدیقیہ بڑیچ آباد موسی کالونی کی بنیاد رکھی جہاں قاعدہ وناظرہ اورتحفیظ القرآن کے ساتھ درسِ نظامی کا شعبہ بھی تھا۔ وہیں بنات کے مدرسے کا سنگِ بنیاد بھی رکھا۔ جس کی فیض اب تک جاری ہے۔ بنات کی تقریبا گیارہ شاخیں ہیں جن میں فی الحال 580 بچیاں زیرِتعلیم ہیں۔
240 کےلگ بھگ بچیاں علم کے زیور سے آراستہ ہوکر عالمات کی صف میں داخل ہوگئی ہیں۔
جگہ کم پڑنے کے باعث مفتی جان محمدرحمہ اللہ نے 2010ءمیں میاں غنڈی ہزارگنجی میں ایک وسیع وعریض مسجد ومدرسے کی بنیاد ڈالی۔ جو مدرسہ عربیہ صدیقیہ بلوچستان کے نام سے مسمی ہے۔
جہاں تقریبا2016ءمیں باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا۔سالِ اول سے درجہ خامسہ تک کے درجات ہیں۔
دور دور سے آئے ہوئے کثیر تعداد میں طلبہ کرام سیرابیِ علم حاصل کررہے ہیں۔
مفتی صاحب کی سیاسی خدمات بھی ان گنت ہیں۔ وہ تحصیل صادق آبادضلع رحیم یار خان کےجی ٹی آئی کے مضبوط ورکر رہے ہیں۔ انہوں نے وہاں کے طلبہ میں سیاسی سوچ اجاگر کیا جمعیت طلبائ اسلام میں نئی روح پھونک دی۔نوجوانوں میں اسلامی سوچ کی سیاست دوبارہ زندہ کیا۔
فراغت کے بعد کوئٹہ آکر جمعیت علماءاسلام میں بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دی۔ دو مرتبہ بھاری اکثریت کے ساتھ جمعیت علماءاسلام کلی بڑیچ آباد مفتی محمود یونٹ کے امیر منتخب ہوئے۔ ضلعی مجلس عمومی، صوبائی مجلس عمومی اور مرکزی مجلس عمومی کے رکن رہے ہیں۔
علاقائی خدمات بھی سرانجام دیتے رہے۔
اکثر قومی یا علاقائی فیصلوں میں آپ مدعو کیے جاتے اور آپ کے فیصلوں پر جانبین کاہر فرد سرِتسلیم خم کر لیتا۔
غرض آپ کی شخصیت ایک جامع اور ہر طرح کے لوگوں کا مرجع تھی۔
حضرت مفتی جان محمد صاحب جمعیت علماءاسلام ضلع کوئٹہ کے عاملہ کے رکن مفتی ابوبکر صاحب اور مولوی کفایت اللہ کے کزن تھے۔ حافظ بشیر احمد صاحب اورحافظ نجیب اللہ کے بھائی حافظ ابراہیم اور مولوی رفیع اللہ صاحب کے چچا تھے۔ مدرسہ عربیہ صدیقیہ بلوچستان کی تمام تر ذمہ داریاں اور اہتمام
مولوی رفیع اللہ صاحب (جوکہ میرے ہم درس رہے ہیں)کے کندھوں پر ڈال دی گئی ہیں۔ جن کے لیے ہم دست بدعا ہیں کہ اللہ تعالی ان سے دین کی بھر پور خدمات لیں۔( آمین)
گزشتہ رمضان کے مہینے میں مفتی جان محمد رحمہ اللہ کے چچا حاجی اختر محمد مرحوم فوت ہوئے تھے۔ ہم تعزیت کے لیے گئے تو حضرت مفتی صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کی طبعیت ناساز تھی۔ عید کے بعد ہم ان کی عیادت کی غرض سے ان کے بھائی حافظ بشیر صاحب سے ملاقات کی۔ انہوں نے حضرت مفتی صاحب کے بارے میں بتایا کہ ان کی طبعیت ٹھیک نہیں اور وہ ملاقات سے بھی معذرت خواہ ہیں۔ مختصر علالت کے بعد بروز ہفتہ 6 جون کو اس جہانِ فانی کو الوداع کہہ گیے۔اناللہ واناالیہ راجعون۔
ان کی خدمات عالیہ کو تادیر یاد رکھا جائیگا۔