کوئٹہ ، گیس غائب ، شہری پریشان اور وزیراعظم
رپورٹ : اسرار کھیتران
موسم سرما کے شروع ہوتے ہی گزشتہ کئی سالوں کی طرح اس سال بھی صوبائی دارالحکومت کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں گیس کی قلت اور کم پریشر نے گیس صارفین کا جینا دوبھر کردیا ، صبح و شام گیس نہ ہونے کے باعث خواتین کو تہجد کے وقت بیدار ہو کر کھانا پکانا پڑتا ہے اس پریشان کن صورتحال کے باعث شہری کالجز ، یونیورسٹیز ،دفاتر اور دکانوں پر ناشتہ کئے بغیر جانے پر مجبور ہوتے ہیں ۔
اس سلسلے میں علاقہ مکینوں کا کہنا تھا کہ سردیاں شروع ہوتے ہی گیس کا غائب رہنا شہریوں کیلئے درد سر بنا رہتا ہے ۔ گزشتہ کئی سالوں سے یہ سلسلہ بد ستور جاری ہے لیکن کوئی نوٹس لینے والا نہیں، علاقہ مکینوں نے اعلیٰ حکام سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اس شدید سردی کے موسم میں گیس کے سنگین مسئلے پر متعلقہ ذمہ داروں کیخلاف نوٹس لیا جائے بصورت دیگر ہم شدید احتجاج کرنے پر مجبور ہونگے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی ۔
اس حوالے سے موسم سرما کے شروع ہونے سے قبل وزیراعظم عمران خان نے اسلام آباد میں پیٹرولیم ڈویژن کے زیر اہتمام گیس کے مسائل پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یہ خدشہ ظاہر کیا تھا کہ قدرتی گیس کے نتائج بتدریج کم ہورہے ہیں اور موسم سرما میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا بڑا مسئلہ سامنے آئے گا جبکہ آئندہ برس موسم سرما میں گیس کا بحران جنم لے گا ۔ وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ سردیوں میں گیس کے بحران کے علاوہ کئی مشکلات ہیں ملک میں 27 فیصد شہریوں کو گیس ملتی ہے جبکہ باقی ایل پی جی سلنڈر استعمال کرتے ہیں اور میں بھی ایل پی جی استعمال کرتا ہوں ایل پی جی کی قدر عام گیس کے گھریلو صارفین کے مقابلے میں 4 گنا زیادہ ہے اور اس حوالے سے ندیم بابر نے بھی وزیر توانائی عمرایوب کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ آنے والے دنوں میں بڑے پیمانے پر گیس کی لوڈشیڈنگ ہوگی ۔
واضح رہے کہ گیس کی کمی سے متعلق وزیراعظم کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب گزشتہ دنوں گیس کی شدید قلت کے حوالے سے خبردار کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے کہا تھا کہ آئین کی دفعہ 158 جس میں گیس پیدا کرنے والے صوبوں کو ترجیحی حقوق دینے کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ قابل عمل نہیں رہی اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو آگے بڑھنے کے لیے قابل عمل راہ پر اتفاق رائے حاصل کرنا ہوگا۔
اس معاملہ پر بلوچستان کے عوام کا شدید ردعمل سامنے آیا کہ اگر ایسا ہے تو پھر پورے ملک میں بلوچستان کے علاوہ باقی تینوں صوبوں کو جو گیس سپلائی کی جارہی ہے جس سے فیکٹریاں چل رہی ہے اور تینوں صوبوں میں چھوٹے سے چھوٹے گاﺅں میں گیس کی سپلائی جاری ہے اور اس کے علاوہ ملک کے تمام سرکاری اداروں ( کینٹ ، گورنر ہاﺅس ، وزیراعلیٰ ہاﺅس وغیرہ وغیرہ ۔۔۔) میں کیوں قدرتی گیس کے نتائج کم نہیں ہورہے ہیں ۔