مولانا مفتی محمود پیکرِ عزیمت و استقامت
دستورِ حیات یہی ہے کہ ازل سے ابد تک دنیا میں آنے والا ہر ذی روح ایک نہ ایک دن اس فانی دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کچھ ہستیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جو دنیا سے جانے کے بعد بھی فنا کے اندھیروں میں گم نہیں ہوتیں بلکہ اپنی خوشبو سے صدیوں تک فضاو¿ں کو مہکاتی رہتی ہیں۔ ان کی تعلیمات نسلوں کے لئے چراغِ راہ بنتی ہیں ان کی قربانیاں تاریخ کے اوراق کو تابندگی بخشتی ہیں اور ان کا روشن کردار دلوں میں ہمیشہ کیلئے زندہ جاوید رہتا ہے۔ یہی وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جو شخص نہیں بلکہ شخصیت بن کر تاریخ کے صفحات پر امر ہو جاتے ہیں ان کا وجود مٹتا نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی عظمت کے چرچے اور زیادہ نمایاں ہوتے جاتے ہیں۔ انہی عظیم المرتبت شخصیات میں مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود کا نام سرفہرست ہے جن کی زندگی درویشی سادگی بصیرت اور اصول پسندی کا حسین امتزاج تھی ان کی گفتار میں دلائل کی قوت اور حقانیت کی جوت جگمگاتی تھی ان کی سیاست میں شفافیت اور اخلاص کی خوشبو رچی بسی تھی ان کی نجی زندگی سادگی اور خاکساری کا پیکر تھی اور ان کی فکر میں اسلام کی جاوداں تعلیمات کی روشنی جھلکتی تھی یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا ذکر نہ صرف ان کے چاہنے والوں کے دلوں کو گرما دیتا ہے بلکہ دشمنانِ دین کو بے چین اور مضطرب کر دیتا ہے اور یہ حقیقت آشکار کرتا ہے کہ وہ محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک عہد اور ایک تحریک کا نام تھے جن کی یادیں اور افکار وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید تابندہ ہوتے جا رہے ہیں۔دستار و جبہ کے مسنون لباس میں ملبوس دنیاوی نمود و نمائش سے بے نیاز حضرت مولانا مفتی محمود کی شخصیت میں ایسا درویشانہ وقار اور روحانی جاذبہ جھلکتا تھا کہ اقتدار کی کرسی پر جلوہ افروز ہونے کے بعد بھی وہ ہمیشہ بوریہ نشین سادہ مزاج اور خاکساری کا پیکر دکھائی دیتے رہے جب وہ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیرِ اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے تو ان کی زندگی میں کوئی ظاہری تبدیلی نہ آئی نہ ان کی رہائش گاہ عالی شان بنی نہ ان کا طرزِ بود و باش شاہانہ ہوا بلکہ وہی سادہ زندگی وہی عوامی رنگ اور وہی درویشانہ مزاج ہر حال میں قائم رہا ان کے چہرے سے جھلکتا ہوا اخلاص اور عوامی خدمت کا جذبہ ان کے کردار کو اور بھی نمایاں کرتا تھا۔ یہی وہ غیر معمولی طرزِ عمل تھا جس نے ان کے ناقدین کو بھی اعتراف پر مجبور کیا کہ اقتدار ان کے لیے کوئی آسائش یا ذاتی فخر کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک کڑی آزمائش اور خدمتِ خلق کا میدان تھا۔ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ کو عوام کی امانت سمجھتے ہوئے کرپشن اقرباپروری اور ذاتی مفاد کی سیاست کو اپنے قریب تک نہ آنے دیا اور اپنی حکومت کو شفافیت دیانت اور اصول پسندی کا نمونہ بنا دیا یہی وجہ ہے کہ ان کے دورِ اقتدار کی سادگی شفافیت اور دیانت آج بھی ایک سنہری معیار اور تاریخ کا روشن باب سمجھا جاتا ہے۔مشاہدہ کیا جائے تو ا±س دور کے سیکولر اور لادین حلقے بڑی چالاکی اور مکاری کے ساتھ یہ کوشش کر رہے تھے کہ علما کو صرف مسجد کے منبر و محراب اور مدرسے کے درس و تدریس تک محدود کر دیا جائے اور سیاست کو ا±ن کے لیے ناپاک اور گناہ کبیرہ قرار دے کر انہیں قومی سیاست اور قومی فیصلوں سے دور رکھنے کی سازشیں رچائی جا رہی تھیں۔ ایسے نازک حالات میں حضرت مولانا مفتی محمود نے بصیرت و حکمت کے ساتھ علمی میدان سے سیاسی میدان کی طرف قدم بڑھایا یہ جرات مندانہ قدم مخالفین کو سخت گراں گزرا اور انہوں نے شور مچایا کہ اب حضرت کی علمی عظمت ماند پڑ جائے گی اور سیاست کا گند ا±نہیں آلودہ کر دے گا لیکن تاریخ نے گواہی دی کہ اس درویش صفت عالم نے سیاست کے میدان کو بھی علم عمل اور شفافیت کی خوشبو سے نہ صرف معطر کیا بلکہ یہ ثابت کر دیا کہ اگر نیت پاک ہو اور مقصد دین کا تحفظ اور عوام کی خدمت ہو تو سیاست بھی عبادت کا درجہ اختیار کر لیتی ہے۔ آپ نے عملاً یہ پیغام دیا کہ علما کا مقصد اقتدار کی چمک دمک یا ذاتی مفاد کا حصول نہیں بلکہ دین کی پاسبانی اور امت کی راہنمائی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ وزارتِ اعلیٰ جیسے منصب پر فائز رہنے کے باوجود آپ کا دامن سیاست کی آلودگی سے پاک بے داغ اور روشن کردار کی تابناکی سے مزین رہا اور آپ آنے والی نسلوں کے لیے مینارِ استقامت اور مشعلِ راہ بن گئے۔حضرت مولانا مفتی محمود کی سیاسی جدوجہد کا سب سے روشن پہلو ان کی اصول پسندی تھی چنانچہ انہوں نے وقت کی آمرانہ طاقتوں کے سامنے سر جھکانے کے بجائے عزم و ہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا جابروں کو للکارا اور سیاسی مداریوں کے مکروہ کھیل کو بے نقاب کیا یہاں تک کہ دنیا پر یہ حقیقت آشکار ہو گئی کہ اگر دل میں ایمان کی حرارت اور اصولوں کی پاسداری ہو تو کوئی طاقت انسان کو جھکا نہیں سکتی یہی وہ اصولی جرات تھی جس کے سبب حضرت نے کبھی ذاتی مفاد یا وقتی فائدے کے لیے کوئی فیصلہ نہ کیا بلکہ ان کا ہر قدم ہر فیصلہ اور ہر جدوجہد صرف اور صرف اصولوں اور نظریات کے تابع رہی اور یہی وہ امتیاز ہے جس نے سیاست کے بڑے بڑے کھلاڑیوں کو بھی ان کی استقامت کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے پر مجبور کیا انہی اصولوں کی روشنی میں آپ کی سب سے عظیم دینی و سیاسی خدمت 1973ئ کے آئین میں اسلامی دفعات کا شامل ہونا اور قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے میں آپ کا بنیادی کردار ہے اور یہی وہ تاریخی کارنامہ ہے جس نے تاریخ کے اوراق پر آپ کے نام کو ہمیشہ کے لیے روشن کر دیا تحفظِ ختمِ نبوت کے اس عظیم معرکے میں آپ کی علمی بصیرت اور سیاسی حکمت نے امتِ مسلمہ کو وہ کامیابی عطا کی جس پر آج بھی پوری امت آپ کی شکر گزار ہے اور یہی اسلامی دفعات آج بھی سیکولر قوتوں کے لیے ایک چبھتی ہوئی حقیقت بنی ہوئی ہیں۔ وقتاً فوقتاً ان دفعات کو بیرونی ایجنڈوں کے تحت کمزور کرنے کی کوشش کی گئی مگر الحمدللہ حضرت مفتی محمود کے جانشین قائدِ جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن نے اپنی جماعت کے ساتھ ہر بار ان ناپاک عزائم کو ناکام بنایا اور امت کے دینی جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے ان دفعات کے تحفظ کی نئی تاریخ رقم کی یہی وہ حقیقت ہے جو اس امر کی شاہد ہے کہ حضرت مفتی محمود کی اصول پسندی دینی غیرت اور سیاسی بصیرت ہمیشہ اہلِ حق کیلئے مینارِ رہنمائی اور حوصلہ و استقامت کا سرچشمہ بنی رہے گی۔آج اگر ملک کی سیاست میں دینی جماعتیں اپنا مو¿ثر کردار ادا کر رہی ہیں تو یہ دراصل حضرت مولانا مفتی محمود اور ان کے رفقا کی قربانیوں اور محنت کا ثمر ہے کیونکہ انہوں نے اس وقت کے مشکل ترین حالات میں بھی دینی قوتوں کو نہ صرف سیاست کے میدان میں جگہ دلائی بلکہ انہیں وہ وقار بخشا جسے کوئی طاقت مٹا نہ سکی اگرچہ سیکولر عناصر آج بھی مذہبی طبقے کو برداشت کرنے پر آمادہ نہیں لیکن تاریخ اور حالات نے انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا ہے کہ اب دینی طبقے کو سیاست سے ختم کرنا ممکن نہیں مولانا مفتی محمود آج ہمارے درمیان موجود نہیں مگر ان کے جانشین ان کے مشن کو آگے بڑھا رہے ہیں اور ہر سال 14 اکتوبر کو ان کے یومِ وفات پر یہ عہدِ تجدید کیا جاتا ہے کہ ان کی فکر ان کے وڑن اور ان کے مشن کو زندہ رکھا جائے گا کارکنانِ جمعیت اس دن نہ صرف اپنے محبوب قائد کے ساتھ عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں بلکہ یہ عہد بھی دہراتے ہیں کہ اسلامی دفعات کے تحفظ ختمِ نبوت کے دفاع اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔ حضرت مفتی محمود اس بات کی زندہ مثال ہیں کہ ایک بوریا نشین عالم جدید جمہوری معاشرے میں نہ صرف حکومت چلا
سکتا ہے بلکہ کرسیِ اقتدار کو خدمتِ خلق کا ذریعہ بھی بنا سکتا ہے ان کی خاکساری اور درویشانہ طرزِ زندگی ان کی شجاعت اور بے خوفی، انکی اصول پسندی اور شفاف کردار آج کے سیاسی رہنماو¿ں کیلئے مشعلِ راہ ہے۔ وہ اگرچہ دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں مگر ان کی یادیں آج بھی دلوں میں زندہ ہیں ان کے افکار آج بھی رہنمائی کر رہے ہیں اور ان کی قربانیاں آج بھی امت کے لیے حوصلے اور استقامت کا سرمایہ ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کا مشن جاری ہے ان کے پیروکار میدانِ عمل میں موجود ہیں اور ان کے افکار و خدمات تاریخ کے اوراق پر ہمیشہ سنہرے حروف سے لکھی جائیں گی۔