مذاکرات کس سے ہوں؟ قبائلی روایات، سیاسی ہٹ دھرمی اور بلوچستان کا مستقبل

0 154

تحریر : فرید بگٹی

ہمارے اسلاف کی موروثی روایات و اقدار جو صدیوں کی آزمودہ حکمت و فراست کا نچوڑ ہیں اس امر پر متفق نظر آتی ہیں کہ اگر کسی انسان کے ہاتھوں ناحق خون سرزد ہو جائے تو وہ پشیمانی و ندامت کے آثار کے ساتھ مقتول کے خانوادے کے ان اراکین سے رجوع کرتا ہے جو انتقام و عناد سے مبرّا بصیرت و متانت سے متصف اور قبائلی بصیرت کے امین ہوتے ہیں۔ ایسے مواقع پر روایت یہ ہے کہ صلح کے داعی اشخاص سفید پوشاک زیب تن کیے عمامہ یا بلوچی پگڑی باندھے اور بعض اوقات قرآنِ مجید ہاتھوں میں اُٹھائے مقتول کے اہلِ خانہ کی دہلیز پر حاضر ہوتے ہیں تاکہ ان کا ظاہر و باطن دونوں صلح و آشتی کی گواہی دے سکیں۔
اگر مقتول کے خاندان سے کوئی شخص جوشِ انتقام میں مسلح بھی ہو جائے تو قبیلے کے بزرگ اور سن رسیدہ افراد اپنی فہم و فراست اور قبائلی شعور کو بروئے کار لاتے ہوئے معاملے کو فی الوقت التواء میں ڈال دیتے ہیں، تاکہ جذبات کی شدت مدہم پڑ جائے اور وقت کی گرد “پرانی ہوا” بن کر خون کے جوش کو سرد کر دے۔ اس کے بعد جو فیصلہ کن مرحلہ آتا ہے اُسے “مڑکہ” یعنی روایتی جرگہ کہتے ہیں جہاں دلائل، ثقافتی اشارات اور شریعت و روایت کے امتزاج سے فیصلے صادر ہوتے ہیں۔
تاہم المیہ یہ ہے کہ عصرِ حاضر کے قبائلی مدعی اگرچہ قبائلیت کا دم بھرتے ہیں، مگر قبائلی حکمت و تدبر سے ناآشنا دکھائی دیتے ہیں۔ وہ صرف اس لیے خاموش رہتے ہیں کہ کہیں ان کے سیاسی مفادات پر آنچ نہ آ جائے۔ چنانچہ ناعاقبت اندیشی سے لبریز بیانات دئیے جاتے ہیں کہ ہم مزاکرات کریں بھی تو کس سے کریں؟ اور یہ استفہامِ انکاری متعدد بار دہرایا جاتا ہے، جیسے زبان سے زہر اور سماعت میں صدا گونجتی ہو کہ گویا کوئی بھی مزاکرات کے قابل نہیں۔
جب اس استفسار کا جواب دیا جاتا ہے کہ “جن سے مزاکرات کرنے کی بات کی جاتی ہے وہ اللہ نظر یا بشیر زیب ہیں جو بی ایل ایف اور بی ایل اے جیسے مسلح دھڑوں کے سرغنے ہیں تو سوال کنندگان خاموش ضرور ہوتے ہیں، مگر اطمینان کے نور سے ان کے باطن منور نہیں ہوتے۔ کیونکہ ان کے ضمیر میں اب بھی یہ خلش باقی رہتی ہے کہ بلوچستان کا قضیہ صرف اور صرف مزاکرات کے آئینے میں سلجھایا جا سکتا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا مزاکرات صرف انہی افراد سے ممکن ہیں جو بندوق کے سائے میں سانس لے رہے ہیں؟ کیا ان افراد کو نظرانداز کرنا حکمت ہے جو آج بھی غیر مسلح رہ کر فکری و نظری محاذ پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں؟ وہ جو میڈیا، علمی مجالس اور بین الاقوامی فورمز پر اپنے مقدمے کی پیروی کر رہے ہیں کیا وہ گفت و شنید کے لائق نہیں؟
کیا سلیمان داؤد جو بلوچی چادر کڑھی دار کُرتے اور قبائلی وقار کے ساتھ سیاسی اور قومی سوالات پر مہذب لب و لہجہ رکھتے ہیں ان سے مکالمہ ناممکن ہے؟

کیا ڈاکٹر نسیم بلوچ، جو قلم کے ذریعے فکری محاذ پر صف آرا ہیں قابلِ اعتنا نہیں؟

کیا ہیربیار مری، جس کی تنظیم (بی ایل اے، اے گروپ) اپنی آخری ہچکیاں لے رہی ہے، اور براہمداغ بگٹی، جس کی جماعت فقط مصنوعی سانسوں کے سہارے قائم ہے، ان سے بھی دستِ گفتگو دراز نہیں کیا جا سکتا؟
اسی طرح دیگر متحرک بلوچ رہنماؤں جو بلوچستان کی آزادی کیلے عالمی اداروں میں جدوجہد کرنے والوں ڈاکٹر ظفر بلوچ لطیف جوہر بلوچ اور بلوچ وائس یو کے کے رہنما مہراللہ بلوچ وغیرہ وغیرہ کیا ان سے بات نہیں کی جاسکتی ؟ اگرچہ یہ چھوٹے لوگ ہیں یہ ریاست کے قد کے برابر لوگ نہیں لیکن ان کی ریاست سے ناراضگی معنی خیز ضرور ہے جو کہیں کسی صورت میں صف آراء ہیں آپ کی سنجیدگی کے عالم کی شروعات ہی ان جیسے غیر مسلح حضرات سے مزاکرات کی اپروچ حاصل کرنے سے ہے

یہاں سوال عقیدت یا دشمنی کا نہیں — سوال یہ ہے کہ ہم ان افراد سے مزاکرات کیوں نہیں کرتے جو ابھی تک بندوق بردار نہیں بنے؟ کیا یہی دانش و مصلحت ہے کہ ہم اس آگ کے دہانے پر کھڑے نوجوانوں کو محض اس لیے پہاڑ کی طرف دھکیل دیں کہ ہم نے ان کی قیادت سے بروقت بات کرنے سے انکار کر دیا؟
ہماری قبائلی نشستیں، مساجد، درگاہیں، اور حجرے ہمیشہ ایسے گفت و شنید کے مراکز رہے ہیں جہاں عمامہ پوش بزرگ قرآنِ کریم کی چھاؤں میں فیصلہ کن بات کرتے رہے ہیں۔ کیا آج ہم اُس روحانی ثقافت سے کٹ چکے ہیں؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم صرف طاقتوروں سے نہیں، بلکہ اُن سے بات کریں جن کے پاس دلیل ہے، زبان ہے، قلم ہے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اُن کے ہاتھ خون آلود نہیں۔ اس وقت اگر بلوچستان کے مسئلے کو کسی سطح پر سمجھداری سے سنوارا جا سکتا ہے، تو وہ یہی ہے کہ ہم عسکریت کے بجائے بصیرت کے راستے پر
چلیں۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.