میڈیا کی زبان بندی کے لئے آرڈیننس لایا گیا ہے،اراکین بلوچستان اسمبلی

0 292

کوئٹہ(ویب ڈیسک)بلوچستان اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو ڈیڑھ گھنٹے کی تاخیر سے ڈپٹی اسپیکر سردار بابرموسیٰ خیل کی صدارت میں شروع ہوا، اجلاس کے آغاز پر وفاقی حکومت کی جانب سے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے اجراءکے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی کال پر صحافیوں نے احتجاجا اسمبلی اجلاس سے واک آﺅٹ کیا ا س موقع پر پشتونخواءملی عوامی پارٹی کے رکن نصر اللہ زیرے نے صحافیوں کے احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا ایف آئی اے کے ذرےعے صحافیوں سمیت تمام طبقات کی زبان بند ی کی جارہی ہے ایف آئی اے کو پیکا آرڈیننس کے تحت اختیار دیا گیا ہے کہ وہ کسی کو بھی شکایت پر حراست میں لے سکتے ہیں اور انہیں چھ ماہ تک ضمانت بھی نہیں مل سکتی انہوں نے کہا کہ دنیا آزادی اظہار رائے کی جانب گامزن ہے لیکن یہاں عوام کے بنیادی حقوق سلب کئے جارہے ہیں آئین کے آرٹیکل 8سے 28تک بنیادی حقو ق تعین کئے ہیں جن میں آزادی اظہار رائے، آزادی صحافت بھی شامل ہیں لیکن سینیٹ کے اجلاس کے ایک دن بعد اور قومی اسمبلی کے اجلاس سے دو دن پہلے حکومت آرڈیننس لائی ہے جو کالا قانون ہے ایوان صدر آرڈیننس فیکٹری بن گیا ہے پشتونخواءملی عوامی پارٹی صحافتی تنظیموں کے احتجاج اور موقف کی تائید کرتی ہے لیکن یہاں احتجاج کریں تو ایف آئی آر درج کی جاتی ہیں اس موقع پر ڈپٹی اسپیکر سردار بابر خان موسیٰ خیل نے ارکان اسمبلی ثناءبلوچ، نصر اللہ اور قادر علی نائل کو صحافیوں سے مذاکرات کر کے انہیں ایوان میں واپس لانے کے لئے بھیجا ارکان اسمبلی نے صحافیوں سے مذاکرات کئے جس کے بعد صحافی اجلاس کا بائیکاٹ ختم کر کے دوبارہ ایوان میں کوریج کے لئے آئے ،بعدازاں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا بلوچ نے کہا کہ صحافی برداری سے مذاکرات کئے ہیں جس کے بعد انہوں نے احتجاج ختم کیا میڈیا ریاست کا چوتھا ستون تصور کیا جاتاہے اسکے بغیر بہتری لانا ممکن نہیں ہے صحافی نہ صرف معاشرے کو باخبر رکھتے ہیں بلکہ درست سمت کے تعین میں بھی مددگار ثابت ہوتے ہیں انہوں نے کہا کہ میڈیا کی زبان بندی کے لئے آرڈیننس لایا گیا ہے آرڈیننس کے اجراءایمرجنسی یا جنگی حالات میں کیا جاتا ہے مگر صدر پاکستان آرڈیننس جاری کر کر کے ایوان صدر کی وقعت گنوا دی ہے آرڈیننس کے اجراءسے قبل صحافیوں کو بھی اعتمادمیں نہیں لیا گیا پیکا آرڈیننس بنیادی حقوق سے متصادم ہے سوشل میڈیا پر ہمیں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن ہم نے ہمیشہ برداشت کا رویہ اپنایا ہے انہوں نے کہا کہ پیکا آرڈیننس آنے بعد صحافی نے خبر چھاپی تو ایف آئی اے اسے ٹارچر کر ے گا ایسے قوانین 16ویں صدی میں بھی نہیں آئے تھے بلوچستان اسمبلی میں قرار داد پیش کرتے ہیں کہ تمام ارکان اسمبلی پیکا آرڈیننس کو مسترد کرتے ہیں اس موقع پر عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اصغر خان اچکزئی نے تجویز دی کہ انکی صحافی اطہر متین کے قتل کے خلاف لائی گئی قرار داد کے ساتھ ثناءبلوچ کی مجوزہ قرار داد کو کلپ کردیا جائے تاہم ڈپٹی اسپیکر سردار بابرخان موسیٰ خیل نے کہا کہ فی الوقت ایک اور قرار داد پر بحث جاری ہے اس دوران اسے قرار داد کے ساتھ کلپ نہیں کیا جاسکتا بعد میں علیحدہ قرار داد لانے کی اجازت طلب کی جاسکتی ہے اسمبلی کے اجلاس کے آغاز میں وزیرستان میں شہید ہونے والے لانس نائیک شبیر حسین کے درجات کی بلندی کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی اجلاس میں صوبائی وزراءکی عدم موجودگی پر توجہ دلاﺅ نوٹسز ، وزیر بلدیات کے رخصت پر ہونے پر محکمہ بلدیات کے سوالات اور اپوزیشن لیڈر کی عدم موجودگی پر انکی قرار داد ڈیفر کردی گئی ، اجلاس میں صوبائی وزراءو ارکان سردار محمد صالح بھوتانی، سردار یار محمد رند، سردار عبدالرحمن کھیتران، میر ضیاءاللہ لانگو، عبدالرشید بلوچ، میر اکبر آسکانی، میر نعمت اللہ زہری کی رخصت کی درخواستیں پیش کی گئیں جنہیں ایوان نے منظور کرلیا اجلاس میں عوامی نیشنل پارٹی کے رکن اصغر خان اچکزئی نے مشترکہ قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہرگاہ کہ گزشتہ روز روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی اطہر متین کو نامعلوم مسلح افراد نے اندھا دھند فائرنگ کر کے بے دردی سے قتل کیا بجائے اس کے کہ سینئر صحافی کے قتل کی تحقیقات ہوتیں پولیس نے اس واقعہ کو ڈکیتی کا رنگ دے کر یہ معاملہ سرد خانے میں ڈال دیا اور اس طرح صحافیوں کو اٹھانا اور قتل کرنا ایک معمول بن گیا ہے صحافی اطہر متین کے قتل سے پہلے اسلام آبادم میں ایک نیوز ایجنسی کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی محسن بیگ کو ان کے گھر سے گرفتار کیا اور چادر اور چار دیواری کا تقد س پامال کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر تشدد بھی کیا گیا جبکہ آئین اور قانون میں آزادی اظہار رائے اور تحریر ،تقریر کی ضمانت دی گئی ہے لہذا یہ ایوان صحافی اطہر متین کے قتل اور محسن بیگ کی گرفتاری کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے صحافیوں سے مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے اور مطالبہ کرتا ہے کہ صحافی اطہر متین کے قاتلو کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے، قرار داد کی موضونیت پر بات کر کے اصغر خان اچکزئی نے کہا کہ صحافی برداری پر ماوائے آئین ،عدالت و قانون حملے ہورہے ہیں صحافیوں نے احتجاجا ً اجلاس سے واک آﺅٹ بھی کیاہے انہوں نے کہا کہ تنقید کرنے یا خامیوں کی نشاندہی پر پہلے صحافیوں کو فون کالز کی جاتی ہیں پھر ان پر حملے کئے جاتے ہیں محسن بیگ کی گرفتار قوم کے سامنے ملک کا کوئی بھی ایسا شہر نہیں جہاں صحافیوں نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں نہ اٹھائی ہوں یا پھر انہیں دھمکیاں نہ ملی ہوں حامد میر کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے آج تک نہ حملہ آور گرفتار ہوئے نہ کسی کی نشاہدہی ہوئی اسی طرح عاصمہ شیرازی ، غریدہ فاروقی سمیت دیگر صحافیوں کو بھی ہدف بنایا گیا ہے انہوں نے کہا کہ صحافی ہر لحاظ سے ہٹ لسٹ پر رہیں بہت سے حملوں کے باوجود بھی جب صحافی برداری کی زبان بند ی نہیں کی جاسکی تو انہیں خاموش کروانے کے لئے آرڈیننس لایا گیا ہے اگر صحافی ظلم ،بربریت، کوتاہی کی نشاندہی ظاہر نہیں کریں تو معاشرے میں بہتر ی کس طرح آسکے گیی آج ہم پورے پاکستان کو پیغام دینا چاہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی ظلم وجبر کے خلاف آواز اٹھاتی ہے صحافی مشکل ترین وقت سے گزر رہے ہیں اور ہم انکے ساتھ کھڑے ہیں، قرار داد کی مخالفت کرتے ہوئے صوبائی وزیر مبین خلجی نے کہا کہ پیکا ایکٹ 2017میں نواز شریف کی حکومت میں لایا اس وقت انکے اتحادی رہنے والے آج اسکی مخالفت کر کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں کیا یہ اس وقت کالا قانون نہیں تھا میں اس قرار داد کی حمایت نہیں کرتا جمعیت علماءاسلام کے رکن سید عزیز اللہ آغا نے کہا کہ قرار داد اہمیت کی حامل ہے صحافیوں کی زبانوں پر تالے لگائے جارہے ہیں اطہر متین کو دن دیہاڑے قتل کیا گیا جسکی مذمت کرتے ہیں حق بات کو براشت اور اسکا ساتھ دیا جائے ملک کے وسیع ترمفاد میں صحافیوں کو تحفظ فراہم کیا جائے ابھی اجلاس میں قرار داد پر بحث جاری تھی کہ صوبائی وزیر مبین خلجی نے کورم کی نشاندہی کی جس پر ایوان میں کورم پوراکرنے کے لئے گھنٹیاں بجائی گئیں تاہم کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کردیا گیا ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.