کیا پاکستان میں الیکشن ممکن ہے؟؟؟

0 448

پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف قسم کے حالات ائے ہیں آزادی تحریک کے بعد 1954 میں پاکستان کا معاشی بحران اور اس کے بعد ہمسایہ ملکوں سے جنگیں ،اس کے بعد مملکتیی سربراہان کا قتل اور آمریت کا نظام اس طرح کے بہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے
لیکن دور حاضر میں پاکستان ایک طرف ہمسایہ ممالک سے خراب تعلقات اور دوسری طرف حکومتوں میں غیر قانونی مدتوں تک حکومتوں کو قائم کرنا اور اسے واپس گرانا پاکستان میں اس چیز کا معمول بن چکا ہے،
پچھلے ایک سال سے پاکستان تحریک انصاف کے حکومت کے خلاف کئی بار سیاسی جماعتوں کے درمیان جوڑ توڑ ہوا جو مختلف رائے پر مبنی عدم اعتماد کرنا چاہتے تھے مگر کھبی نہ کھبی رائے عامہ پر یکجہتی کا اظہار نہیں ہوا.
مگر کچھ مہینوں کے مسلسل جدوجہد کے بعد سیاسی جماعتوں کا حکومتی وزراء اور نمائندوں سے ملاقاتوں کے بعد عدم اعتماد کامیاب ہوا اور دوسری طرف جماعت اسلامی عدم اعتماد کے سیاسی جماعتوں میں شامل نہیں تھا اور روز پاکستان کے مختلف شہروں میں مہنگائی اور حکومتی نا اہلی کے خلاف مظاہرے کرتے تھے اور پاکستان تحریک انصاف کی حکومت گرانے میں کامیاب ہوا ،
عدم اعتماد کے بعد وزارتوں اور صوبوں کو مختلف سیاسی جماعتوں کے حوالے کردیا اور ن لیگ موجودہ حکومت کے سربراہ بن گئے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی سیٹ پر شہباز شریف کو منتخب کیا
تحریک عدم اعتماد کا مقصد حکومتی نااہلی کرپشن مافیا مہنگائی اور مختلف ممالک سے تعلقات خراب کرنا اور پاکستان میں رواں مالی اقتصادی معاہدے کو نقصان شامل تھے
حکومت کو گرانے کے بعد اس وقت پاکستان کو دو نوعیت کے شدید مسائل کا سامنا ہے، ایک سیاسی عدم استحکام اور دوسرا معاشی بحران۔ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اتحادی جماعتوں کی تشکیل پانے والی حکومت اور بعض سیاسی حلقوں کا خیال تھا کہ سیاسی معاملات ہموار طریقے سے آگے کی طرف بڑھیں گے، مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ تحریک عدم اعتماد میں موجود بڑی سیاسی جماعت کا سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ناراضگی اور اس کے علاوہ مختلف اداروں کو ملنے والا فنڈ کی روک تھام آئی ایم ایف نے مزید پیسے دینے سے انکار کر دیا
اور مزید تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے۔
کچھ سیاسی و سماجی حلقوں کے مطابق عمران خان کے حکومتی دور میں مختلف مقامات پر میڈیا کی سامنے عمران خان کا یہ کہنا ’حکومت سے باہر آ کر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا‘، بظاہر درست ہوتا دکھائی دے رہا ہے اور اِن کے فوری انتخابات کے مطالبے کی بدولت سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے۔
سیاسی عدم استحکام میں مزید شدت معاشی اور سیکورٹی بحران پیدا کر دی ہے،
پاکستان میں اس وقت مہنگائی کی شرح دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ،خوردنی اشیاء سے لیکر بجلی گیس اور امپورٹڈ چیزوں پر مزید ٹیکس اور ڈالر اُونچی اُڑان میں ہے،
اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے
اور میاں شہباز شریف کی حکومت سخت دور کا سامنا ہورہا ہے حکومتی نمائندوں کی طرف سے کھبی خطرے کی سرخ نشان دکھائی دے رہا ہے کہ ممکنہ طور پر شہباز شریف استعفیٰ دے اور معاشی ایکسپرٹ کو حکومت حوالے کریں
یا عمران خان کے بڑے جلسوں کے بعد لانگ مارچ کے اعلان سے ڈر کر الیکشن کا اعلان کردیں کیوں کہ اب تک موجود حکومت اس سخت حالات میں بڑے فیصلے لینے سے گھبرا رہی ہے
جیسے ہی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کامیاب ہوا تو اور حکومت کا خاتمہ ہوا تو سب سے پہلے اپنے قریبی ساتھیوں کے خلاف کارروائی اور کیسزز تیار کیا اور چند مختلف سیاسی جماعت کے سیاسی ورکرز کو پارٹی سے نکلا کر ان کی رکنیت معطل کردی گئی، جس پر عمران کا دستخط تھے،
مگر ان نمائندوں نے مزید عمران خان کے خلاف کارروائیاں شروع کردی ،
عمران خان کے حکومت کے خاتمے کو پورآ بعداِن کی جانب سے فوری شفاف اور فوج کی سربراہی میں انتخابات کا مطالبہ پوری شدت کے ساتھ آیا عمران خان نے وزیرِ اعظم ہاؤس سے نکلتے ہی کچھ سخت کارروائی کرنے کے بعد رمضان المبارک میں ہی عوامی جلسوں کا رُخ کیا اور اب تک کئی شہروں میں جلسے ہوچکے ہیں اور مزید سلسلہ جاری ہے جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے بڑے جلسے ریکارڈ کی گئی ہے
ملتان کے جلسے میں عمران خان کی مریم نواز کے خلاف سخت الفاظ اور اپنے ساتھیوں اور کارکنوں کو اسلام آباد آنے کے لیے بھی اعلان کیا
عمران خان کے تقریر سے لگتا ہے کہ پاکستان میں تحریک عدم استحکام پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور یہ مارچ پاکستان کا سب سے بڑا مارچ ہوگا
سیاسی رہنماؤں کا کہنا اگر اس نظام کو دوبارہ راستہ ملا تو ریاست پاکستان کھبی اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہوسکتا اور ان کا کہنا اگر چہ جولائی سے پہلے انتخابات کا اعلان نہیں ہوا تو2023 تک پھر ممکن نہیں کہ الیکشن ہوجائے ،
موجودہ عدم اعتماد کے تمام سیاسی جماعتوں بشمول دیگر کا کہنا کہ اس دفعہ عمران خان کو سامنے نہیں لانا چاہتے
اور پاکستان تحریک انصاف، موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کرتی اور اِن کے اقتدار کو اپنے اقتدار کے خلاف سازش کا شاخسانہ قرار دیتی ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف کے فوری انتخابات کے مطالبے کو بھی مختلف انداز سے دیکھا جا رہا ہے۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان کی حکومت کا جس انداز سے خاتمہ ہوا، اس سے عوام کے اندر ہمدردی کا عنصر پیدا ہوا اور عمران خان نے حکومت کے خاتمے کو اندرونی و بیرونی سازش قرار دے کر یہ آواز نیچے تک پہنچا دی، لہٰذا اگر اب جلد انتخابات ہوتے ہیں تو اس جماعت کو عوام کی تائید کی صورت سب سے زیادہ فائدہ ہوگا۔
جبکہ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ عمران خان جلد انتخابات کی صورت مبینہ طور پر ’سلیکشن‘ چاہتے ہیں۔ اس پہلو کا اظہار بلاول بھٹو زرداری کر چکے ہیں۔
15 مئی کو کراچی ایئرپورٹ پر استقبالی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا تھا ’سلیکٹڈ دوبارہ سلیکشن کے لیے فوری انتخابات چاہتا ہے۔‘
پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما اسد عمر سے جب یہ سوال پوچھا گیا ’پاکستان تحریکِ انصاف فوری انتخابات کا انعقاد محض اس لیے چاہتی ہے کہ اس کو عوام کی بھرپور تائید کا احساس ہوچکا ہے؟‘، تو اِن کا کہنا ہے ’فوری انتخابات کے انعقاد کا ہمارا مطالبہ محض اس بنیاد پر نہیں کہ ہم جیت جائیں گے، بلکہ ہم فوری انتخابات اس لیے چاہتے ہیں کہ غیر جمہوری طریقے سے آئی حکومت کو تسلیم نہیں کرتے، اس لیے عوام میں جا کر عوامی فیصلہ چاہتے ہیں۔‘
جب اِن سے یہ پوچھا گیا کہ سیاسی جماعتیں موجودہ معاشی بحران کا حل نکالے بغیر اگلے انتخابات کی طرف بڑھتی ہیں تو معاشی بحران دوچند نہیں ہوجائے گا؟‘ تو پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما کا کہنا تھا کہ اس وقت ساری فیصلہ سازی منجمد ہے اور حکومت سے پیٹرول کی قیمت کا فیصلہ تک نہیں ہو رہا۔
’لہٰذا ہمارا خیال ہے کہ نگران حکومت، موجودہ غیر جمہوری حکومت سے زیادہ بہتر فیصلے کرسکے گی۔‘
سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر رسول بخش رئیس کہتے ہیں ’اگر فوری انتخابات ہوتے ہیں تو پاکستان تحریکِ انصاف بڑا معرکہ مار سکتی ہے اور میرا خیال ہے کہ دو تہائی اکثریت سے بھی زیادہ جیت کو ممکن بنا سکتی ہے۔۔
حالانکہ میاں شہباز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی، لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اس بات کا اظہارکیا تھا کہ ملک کو معاشی مشکلات کا سامنا ہے، اس کے لیے غیر معمولی فیصلے کرنا ہوں گے مگر وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے اس طرح کے فیصلے تاحال نہیں ہوسکے ہیں
اس کیلئے اب تک سنجیدگی کا اظہار نہیں ہوا ہے
ایک طرف مولانا فضل الرحمن کے جلسوں کا اعلانات دوسری طرف عمران خان کا حکومت کے خلاف نکلنے اور مارچ کرنے کیلئے تیار ہے.
ان تمام حالات کا سامنا صرف اور صرف حکومتی نمائندوں کو ہے بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا مسلم لیگ ن کو ہے کیونکہ مسلم لیگ ن کا اسٹیک سب سے زیادہ ہے، اس لیے مسلم لیگ ن گھبراہٹ اور تذبذب کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔
پاکستان کی سیاسی حالات سے یہ خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سابق وزیرِ اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بعد مسلم لیگ ن زیادہ پریشان ہے۔
’پریشانی کی ایک وجہ، عمران خان کو ملنے والی عوامی پذیرائی بھی ہے
جو عمران خان اب مختلف جلسوں میں اعلانات اور ملکی معیشت بہتر کرنے تجاویز ساتھ لیکر انا اور اس کے علاوہ امریکہ کے خلاف سخت بیان بازی اور موجودہ حکومت کو امریکہ کا غلام کا لقب دینا
اس دور حکومت کو معیشت کو مضبوط کرنے کے لیے ایک مشکل کا سامنا ہے جو وقت کا کمی کا ہے اگر الیکشن جلدی ہو جاتے ہیں تو اتحادی حکومت میں شامل پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم جمعت علماء اسلام دیگر جماعتوں کو زیادہ خطرہ نہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں اپنی پوزیشن برقرار رکھے گی اور اگر الیکشن شفاف ہوتے ہیں تو ایم کیو ایم بھی کراچی میں آٹھ نو سیٹیں نکال لے گی
اس طرح عمران خان کو مزید بہتر مقام ملنے کا امکان زیادہ ہوگا کیونکہ عوام کو معیشت سے بہتر سخت بیان بازی کو پسند کرتے ہیں
عمران کے دور میں معیشت کو زیادہ نقصان ہوا قرضوں میں اضافہ ہوا
موجود رواں مہنگائی کے دور میں ایک طرف حکومت کا خاموشی دوسری طرف خان صاحب کی جلسوں سے خطاب.جس میں ایک کروڑ نوکریوں کا ذکر پچاس لاکھ گھر پی آئی اے اور ریلوے اور بس اڈے بجلی کے مفت منصوبہ ٹیکس کا بوجھ کم کرنے کے نئے ورژن ساتھ ساتھ کاغذ ساتھ لاتے ہیں##

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.