کوئٹہ ،سانحہ مچھ کے شہداء کے حقیقی وارث انکے لواحقین ہیں نہ کہ مذہب و مسلک کے نام پر سیاست چمکانے والے مفاد پرست عناصر: تحریک نفاذ فقہ جعفریہ
( ویب ڈیسک )
کوئٹہ (اسٹاف رپورٹر) تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے صوبائی صدر انجنئیر ہادی عکسری نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتھ ہوئے کہا ہے کہ امر باعث صد افسوس ہے کہ آج ہماری ملاقات ایک ایسے وقت میں ہو رہی ہے کہ جب وطن عزیز پاکستان دہشتگردی کی آگ کے شعلوں میں جل رہا ہے، اور ہماری ہزارہ قوم کے مرد و زن، بزرگ اور بچے مچھ میں کوئلہ کی کان میں دہشتگردوں کے ہاتھوں انتہائی سفاکی اور بے دردی سے قتل کیئے جانیوالے اپنے پیاروں کی لعشیں سڑک پر رکھے بیٹھے ہیں جبکہ انکی آہیں، سسکیاں اور آنسو حکمرانوں، سیاستدانوں اور سیکیورٹی اداروں سمیت تمام ارباب ِاختیار و ذمہ داران سے سوال کر رہے ہیں
کہ کیا وجہ ہے کہ ہر سانحے کے بعد دہشتگردی کی بیخ کنی کے بارے دلائی جانیوالی یقین دہانیاں اور کیے جانیوالے وعدے محض طفل تسلیاں ہی ثابت ہوتے ہیں؟ اور قوم کے لیئے امن کی مدت فقط اتنی ہی ہے جتنا وقت دہشتگردوں کو ایک کے بعد دوسرے حملے کی تیاری کیلئے درکار ہے۔دہشتگرد جب اور جہاں چاہیں اپنی مرضی سے حملہ کرتے ہیں، بیگناہوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں اور پھر اسکی ذمہ داری قبول کرنے کے اعلانات کرتے نظر آتے ہیں جبکہ انکی دہشتگردی کے متاثرین بے بس و لاچار اپنی ریاست کی جانب سے انسداد دہشتگردی کے اقدامات کا انتظار کرتے رہ جاتے ہیں۔اس پر مذید المیہ یہ ہے کہ حقائق کے برخلاف دہشتگردی کو کبھی لسانی اور کبھی مذہبی یا فرقہ وارانہ مسئلہ قرار دے کر اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے اور اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جس سے دہشتگردی کو مذید تقویت ملتی ہے۔
دنیامیں اسلامی نظریہ کی بنیاد اور ایٹمی قوت کی حامل واحد ریاست پاکستان کو روزِ اول سے ہی عالمی استعماری قوتوں اور ازلی دشمن بھارت کی سازشوں اور جارحیت کا سامنا رہا ہے جو کسی نہ کسی صورت وطن عزیز پاکستان کو غیر مستحکم کرنے اور تقسیم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ جبکہ پاکستان کا یہ المیہ رہا کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی وفات کے بعد اسے حقیقی لیڈرشپ میسر نہ آ سکی، اور اگر کوئی راہنما ملا بھی تو اسے راستے سے ہٹا کر ملک کی باگ ڈور ان کانگریسی پٹھووں کے ہاتھ تھما دی گئی جو ماضی میں قیام پاکستان کے مخالفین اور نظریہ پاکستان سے یکسر غیر متفق تھے۔انہی عناصر کے زیر اثر پالیسیوں کے باعث سرزمین ِ پاکستان غیر ملکی قوتوں کے سیاسی عزائم کی تکمیل اور مفادات کی جنگوں کا اکھاڑہ بنی جس کا باقاعدہ آغاز ضیاء الحق کے تاریک مارشل لائی دور میں اسوقت ہوا جب امریکہ اور سویت یونین جیسے بیلوں کی پراکسی جنگ میں پاکستان کو گھاس بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ افغانستان جنگ کے باعث ملک بھر میں تخریب کاری،
ہیروئن اور کلاشنکوف کلچر متعارف ہوا۔دوسری جانب عرب و عجم کی پراکسی لڑائیوں کیلئے بھی پاکستان کو میدان جنگ بنا دیا گیا جسکے لیئے پاکستان میں بیرونی فنڈنگ کے بل بوتے پر مذہبی و مسلکی تعصبات کی آغوش میں ایسے دین فروش ایجنٹوں کی پرورش کی گئی جنہوں نے پاکستان میں اپنے بیرونی آقاؤں کے سیاسی اثرو رسوخ کے قیام اور توسیع پسندانہ عزائم جیسے مفادات کی جنگ میں عوام کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کا کام سر انجام دیا۔ اخوتِ اسلامی اور مساوات کی بنیادوں پر استوار پاکستان کے پر امن معاشرے میں فروعی اختلافات کو تنازعات میں تبدیل کرکے قتل و غارت گری کی صورتحال پیدا کی گئی اور پھر یہ سلسلہ ایک طویل مدت تک جاری رہا جس میں متشدد گروپوں کی جانب سے نوجوانانِ قوم کو ورغلا کر دین و مذہب کے نام پر فساد اور خون خرابے کا کام لیا گیا
اور دہشتگردی کی ان کاروائیوں کو فرقہ واریت اور مکاتب کی جنگ ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں تاکہ اس آگ کو جلائے رکھنے کیلئے مقامی افراد کی صورت ایندھن کی فراہمی مستقل طور پر جاری رہے۔اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے80 کی دہائی کے آخری حصہ میں شدت پسند گروپوں نے اپنے فسادی نظریات کو ایوانان ِاقتدار تک لے جانے کیلئے میدان ِسیاست کا رخ کیا اور مکتبی و مسلکی بنیادوں پر انتخابات میں حصہ لینے کا آغاز کر دیا تاکہ اپنے متشدد نظریات اور عزائم کیلئے سیاسی پشت پناہی کا حصول ممکن بنایا جا سکے۔ اس اقدام سے گلی محلے کی سیاست میں بھی مسلکی و فرقہ وارانہ عصبیت سرایت کرنے لگی، اور ہمسائے ماں جائے کی روایات پر یقین رکھنے والے پڑوسیوں کے درمیان فکری و نظریاتی اختلافات کی دیواریں، انکے گھروں کے درمیان قائم دیواروں سے کہیں زیادہ بلند ہونے لگیں۔
ان حالات میں قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی نے نظریہ پاکستان کے تحفظ اور آئین کی پاسداری کا علم بلند کرتے ہوئے منافرت انگیزی اور تشدد کی بھرپور اور عملی مخالفت کی۔ آپ نے 1985 میں دہشتگرد کی جو مناسب ترین تعریف بیان کی اسے بعد ازاں اقوام متحدہ نے بھی اختیار کیا۔ دہشتگرد کو دشمنِ انسانیت قرار دیتے ہوئے آغاموسوی نے فرمایا تھا کہ دہشتگرد کوکسی ملک، مذہب یا مکتب و مسلک سے نتھی نہ کیا جائے، دہشتگرد کسی ملک و مذہب کا نمائندہ نہیں بلکہ فقط دہشتگرد ہے لہٰذا اسے اسی تناظر میں دیکھا اور نمٹا جائے۔
دہشتگردی کے بارے اس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے ازخود نوٹس کے جواب میں 21اگست 1997 کو تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں انسداد دہشتگردی کیلئے آقائے موسوی کی سفارشات پر مشتمل 800 صفحات کا جامع ترین منصوبہ بنام موسوی امن فارمولہ پیش کیا۔ اسمیں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے حکومت سے تشدد اور دہشتگردی میں ملوث جماعتوں اور گروپوں پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا اور مختلف مذہبی و سیاسی گروپوں کو ملنے والی بیرونی فنڈنگ کو فساد کی جڑ قرار دیتے ہوئے حکومت سے مذہبی جماعتوں کے اثاثہ جات کی پڑتال اور انہیں ملنے والی بیرونی فنڈنگ پر مکمل پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا۔ یہ تمام سفارشات بعد ازاں حکومت کی جانب سے وجود میں آنے والے انسداد دہشتگردی ایکٹ، نیشنل ایکشن پلان، اور قومی داخلی سلامتی پالیسی کا بھی حصہ بنائی گئیں لیکن تاحال ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
اسکے علاوہ ہم نے منافرت انگیزی و تعصب کی روک تھام اور قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے حکومت سے مذہبی،مسلکی ا ور لسانی بنیاد پر انتخابی سیاست میں حصہ لینے پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ کیا کیونکہ ہمار ا دیرینہ موقف ہے کہ ملک میں قومی خدمت کے نام پر ووٹ مانگنے کے بجائے مسلک و مکتب یعنی شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث یا اسی طرح لسانی امتیازات کی بناء پر ووٹ مانگنا پاکستان کے نظریہ اساسی سے انحراف اور قومی یکجہتی کیلئے زہر قاتل ہے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ہمارے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے14 اپریل 2013 کو مذہب و فرقہ کے نام پر الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کی اہلیت منسوخ کرنے کی وارننگ جاری کی تاہم اس اعلان پر عملدرآمد آج تک نہیں کروایا جا سکا۔
موسوی امن فارمولہ میں تحریک نفاذ فقہ جعفریہ نے شدت پسندوں کی ترویج کی روک تھام اور تخریبی رجحانات کے خاتمے کیلئے ذرائع ابلاغ میں متشدد گروپوں کی کوریج اور ابلاغ بند کیئے جانے کا مطالبہ کیا۔ جبکہ حکومت پاکستان کے بنائے گئے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان میں نکتہ نمبر 5،نکتہ نمبر 11، اور نکتہ نمبر 14 بھی ہمارے اس موقف کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں تاہم ان پر بھی عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مسلسل مطالبے اور کاوشوں کے نتیجہ میں حکومت پاکستان کی جانب سے تحقیقات کے بعد سن 2001 میں دہشتگردی میں ملوث گروپوں کو سرکاری طور پر کالعدم قرار دینے کا آغاز ہوا، جنکی تعداد اسوقت تک 80 سے زائد ہو چکی ہے۔ لیکن ان میں سے بیشتر نئے یا پرانے ناموں سے دوبارہ اور بعض سہ بارہ متحرک ہو چکے ہیں اور ان پر عملی پابندی کہیں دکھائی نہیں دیتی۔
آج اگر وطن عزیز پاکستان دہشتگردی کی آگ میں لہو لہان ہے تو یہ کالعدم گروپوں کو آزاد چھوڑ دینے کے باعث ہے کیونکہ کالعدم دہشتگرد گروپ بیرونی ایجنسیوں کی سازشوں کیلئے مقامی سہولتکار اور پیادوں کے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ کالعدم جماعتوں کو ملنے والی چھوٹ اور انہیں حاصل سرکاری سرپرستی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آپ کے توسل سے حکومت سے درج زیل سوالات کے جوابات چاہتے ہیں
۔ دہشتگردی میں ملوث ہونے کے باعث کالعدم قرار دی گئی تنظیمیں آج تک کیوں متحرک ہیں اور انکے کام کرنے پر پابندی کیوں نہیں لگائی جا رہی؟
۔ نیشنل ایکشن پلان کے پوائنٹ نمبر7 کے برخلاف، کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے سے کیوں روکا نہیں جا رہا؟
۔ کالعدم تنظیموں کے سربراہوں اور عہدیداروں کے نام شیڈول فور سے کیوں نکالے گئے جبکہ انکی جماعتیں تاحال کالعدم ہیں؟
۔ وفاقی وزارت داخلہ کی جانب سے جاری کردہ قومی داخلی سلامتی پالیسی (2014-2018) کی دستاویز میں کالعدم گروپوں کے ناموں کے ساتھ انکے سربراہوں کے نام بھی درج تھے۔ قومی داخلی سلامتی پالیسی کے اگلے ایڈیشن میں کالعدم گروپوں کے ناموں کے ساتھ شامل انکے سربراہان کے نام کیوں نکال دیئے گئے؟
۔ کالعدم گروپوں کے عہدیداران نظریاتی کونسل، رویت ہلال کمیٹی، امن کمیٹیوں، علماء بورڈ سمیت تمام سرکاری اداروں میں کیو ں براجمان ہیں؟
۔ نیشنل ایکشن پلان کے پوائنٹ نمبر 6 کے برخلاف کالعدم گروپوں کو ملنے والی بیرونی امداد پر پابندی کیوں عائد نہیں کی جاسکی؟
۔ انسداد دہشتگردی ایکٹ اور نیشنل ایکشن پلان کے برخلاف کالعدم گروپوں کے سربراہان اپنی جماعتوں کے نام تبدیل کر کے انتخابات میں کیسے حصہ لے رہے ہیں؟
۔ حکومت کی جانب سے عید الضحٰی کے موقع پر بذریعہ اشتہار کالعدم تنظیموں کی فہرست جاری کر کے انہیں قربانی کی کھالیں دینے پر پابندی کا اعلان کیا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ جنہیں کھالیں دینا جرم ہے انہیں حکومت کی جانب سے سرکاری کونسلوں، کمیٹیوں میں عہدے دینا کسطرح جائز ہے؟
۔ جن کالعدم گروپوں نے پاکستان کے شہروں قصبوں کو لہو لہان کیا، حکومت کی جانب سے انسداد دہشتگردی کیلئے جاری کردہ قومی بیانیہ بنام پیغام پاکستان میں انہی کو نیک و پارسا دینی شخصیات کے طور پر کیوں پیش کیا گیا، اور اسطرح دہشتگردوں کو دین کا نمائندہ بنا کر مذہب کی بے حرمتی کیوں کی گئی؟
۔ صدر پاکستان، وزیر اعظم، وفاقتی و صوبائی وزراء اور مشیروں کے ارد گر بیٹھے د نظر آنے والے اور انکے اجلاسوں میں خطابات کر تے ہوئے کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے عہدیداران دہشتگردی کے ستائے مظلوم پاکستانی عوام کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟
۔ حب کالعدم رہنما حکومتی اجلاسوں اور پروگراموں میں حکمرانوں کے دائیں بائیں بیٹھے اور اجلاسوں میں خطابات کرتے نظر آئیں گے تو حکومت نیشنل ایکشن پلان کے نکتہ نمبر 11 پر عملدرآم کیسے یقینی بنائے گی جس کے مطابق کالعدم گروپوں کو اجاگر کرنے پر سخت پابندی ہے؟
۔ کالعدم دہشتگردوں کو آزاد چھوڑ کر پر امن جماعتوں کے اراکین کو شیڈول فور میں کیوں شامل کیا جارہا ہے؟ اس سے حکومت کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟
ہم یہاں یہ بھی دوہرانا اور باور کروانا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہماری پہلی شناخت اسلام، دوسری پاکستان اور ان دونوں کے بعد ہزارہ ہے۔ہم سب سے پہلے مسلمان، پھر پاکستانی اور اسکے بعد ہزارہ قوم کے فرزند ہیں۔لہٰذا کسی کو بھولنا نہیں چاہیئے کہ سانحہ مچھ جیسے دہشتگردی کے سانحات کا اصل نشانہ فقط ہزارہ نہیں بلکہ پاکستان کی سالمیت و استحکام اور اسلامیان پاکستان ہیں۔ دشمنان دین و وطن کیلئے ہزارہ قوم کا قصور یہ ہے کہ یہ پاکستان کے وفادار ہیں اور ہر دور اور ہر حال میں وطن سے محبت کو جزو ایمان سمجھتے ہیں۔ جن انسانیت دشمن دہشتگردوں نے آج ہزارہ قوم کے جوانوں کو خون میں نہلایا ہے، وہی پاکستان کے سیکیورٹی اداروں سمیت بلا تفریق رنگ و نسل، مذہب و مکتب دیگر طبقات پر حملوں میں بھی ملوث رہے ہیں اور اگر انہیں نہ روکا گیا تو یہ آئندہ بھی حملے جاری رکھیں گے۔ آج اگر ہماری باری ہے تو کل کسی اور کی ہوگی۔
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو ، چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں- لہٰذا ضروری ہے کہ سانحہ مچھ میں کی جانیوالی دہشتگردی کو نسلی یا مکتبی امتیازات کے عدسوں کے ذریعے دیکھنا بندکیا جائے کیونکہ ایسا کرنا دہشتگردی سے نمٹنے کے لئے درکار قومی عزم کو کمزور اور دہشتگردوں کوقوت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔اسکے علاوہ ہمیں یہ اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں کہ ماضی کی طرح ہماری لعشوں پر سیاست اور بیک ڈور ڈیلز کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں لہٰذا ہم حکومت پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ سانحہ مچھ کے شہداء کے حقیقی وارث انکے لواحقین ہیں نہ کہ مذہب و مسلک کے نام پر سیاست چمکانے والے مفاد پرست عناصر، لہٰذا حکومت صرف ہزارہ شہداء کے لواحقین سے بات کرے اور انہی کے ساتھ طے پانیوالی بات قابل قبول تصور کی جائیگی۔ اس موقع پر ہم گذشتہ دنوں صوبہ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز اور ایف سی کے جوانوں پر ہونیوالے حملوں کی بھی پرزور مذمت کرتے ہیں اور اس عہد کا اعادہ کرتے ہیں کہ مادر وطن پاکستان کی سالمیت اور قومی یکجہتی کے فروغ کیلئے ہمہ وقت مصروف عمل رہیں گے اور قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی شاہ موسوی کی پالیسی کے مطابق دین و وطن کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کیا جائے گا۔ آخر میں وطن عزیز پاکستان کے لیئے ان دعائیہ کلمات کے ساتھ اختتام کرنا چاہوں گا کہ زلزلوں کی نہ دسترس ہو کبھی، اے وطن تیری استقامت تک، ہم پہ گزریں قیامتیں لیکن ، تو سلامت رہے قیامت تک
[…] (رپورٹ: کاشف حیدری، نمائندہ صحافت کوئٹہ) سپریم شیعہ علماء بورڈ کے سرپرست اعلی قائد ملت جعفریہ آغا سید حامد علی […]
[…] (رپورٹ: کاشف حیدری) تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بلوچستان کے رہنمائوں نے کہا ہے کہ قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ […]