حکمران جھوٹ کیوں بولتے ہیں

0 229

نکل کفر کفر نباشد کے مصداق پر یہ ذکر کرنا نہایت ضروری ہے کہ تحریر کا عنوان دراصل ایک کتاب کا نام ہے۔ “لیڈرز جھوٹ کیوں بولتے ہیں: بین الاقوامی سیاست میں جھوٹ کے بارے میں سچائی” 2011 میں شائع ہونے والی کتاب ہے جسے ماہر سیاسیات جان میئر شیمر نے تحریر کیا۔ John Joseph Mearsheimer (پیدائش 14 دسمبر 1947) ایک امریکی ماہر سیاسیات اور بین الاقوامی تعلقات کے اسکالر ہیں، جن کا تعلق حقیقت پسند مکتبہ فکر سے ہے۔ وہ شکاگو یونیورسٹی کے ممتاز پروفیسر ہیں۔ انہیں اپنی نسل کا سب سے بااثر حقیقت پسند مانا جاتا ہے۔
مصنف دلیل دیتا ہے کہ لیڈر غیر ملکی سامعین کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں سے بھی جھوٹ بولتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ان کے ملک کی بقاء کے لیے اچھا ہے-
کتاب مضمون کے عنوان کو مزید واضح کرتی ہے کہ رہنما دوسرے ممالک سے زیادہ اپنے ملک کے باشندوں سے جھوٹ بولتے ہیں، اور یہ کہ جمہوری رہنما دراصل آمروں کے مقابلے میں اپنے ہی لوگوں سے جھوٹ بولنے کا زیادہ امکان رکھتے ہیں۔ اس طرح، مصنف اپنی کتاب کا آغاز یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ یہ حیرت کی بات نہیں ہے کہ صدام حسین نے WMD ہونے کے بارے میں جھوٹ نہیں بولا — اس نے سچ کہا کہ اس کے پاس کوئی WMD نہیں ہے — لیکن یہ کہ جارج بش اور ان کے کچھ اہم مشیروں نے عراق سے خطرے کے بارے میں امریکی عوام سے جھوٹ بولا۔
مصنف کا کہنا ہے کہ لیڈروں کے لیے دوسرے ممالک سے جھوٹ بولنا مشکل ہوتا ہے کیونکہ ان میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے، خاص طور پر جب سیکیورٹی کے مسائل داؤ پر لگ جاتے ہیں، اور جھوٹ بولنے کے مؤثر ہونے کے لیے آپ کو اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے۔ وہ یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ لیڈروں کے لیے اپنے لوگوں سے جھوٹ بولنا آسان ہے کیونکہ عام طور پر ان کے درمیان اعتماد کا قوی امکان ہوتا ہے۔
میئر شیمر یہ تجویز کرتا ہے کہ زیادہ تر سیاسی جھوٹ پانچ اقسام کے ہوتے ہیں: بین ریاستی جھوٹ، خوف پھیلانا، سٹریٹجک کور اپ، قوم پرست خرافات، اور لبرل جھوٹ۔ وہ ان وجوہات کی وضاحت کرتا ہے کہ رہنما ان مختلف قسم کے جھوٹوں میں سے ہر ایک کی پیروی کیوں کرتے ہیں۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ بین الاقوامی جھوٹ کے منفی اثرات ہو سکتے ہیں، اور وہاں وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ بین الاقوامی جھوٹ بولنا گھر میں دھوکہ دہی کی ثقافت کو جنم دینے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

وہ اس بات پر بھی زور دیتا ہے کہ جھوٹ کے علاوہ دو اور قسم کے فریب بھی ہیں: “concealment” یعنی جہاں لیڈر کسی اہم معاملے کے بارے میں خاموش رہتا ہے، اور “spinning” یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک لیڈر ایسی کہانی سناتا ہے جس میں مثبت بات پر زور دیا جاتا ہے منفی کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ میئر شیمر بین الاقوامی جھوٹ کی اخلاقی جہت پر غور نہیں کرتا؛ وہ اسے محض حقیقت پسندانہ نقطہ نظر سے دیکھتا ہے۔
بات اگر سچائی کے بارے میں کی جائے تو زبان سے فوراً قتیل شفائی کا شعر مئہ سے نکل جاتا ہے کہ:

کھلا ہے جھوٹ کا بازار، آؤ سچ بولیں
نہ ہو بلا سے خریدار، آؤ سچ بولیں

اسی تناظر میں یہ بھی غور کرنا ضروری ہے کہ واشنگٹن پوسٹ نے 2019 میں یہ لکھا کہ امریکی صدر ٹرمپ نے 10,000 سے زیادہ جھوٹے یا گمراہ کن دعوے کیے ہیں۔ اس لحاظ سے وہ روزانہ اوسط ً 23 جھوٹ بولتے تھے۔

بات اگر ہمارے حکمرانوں کی کی جائے تو ایک طرف یہ جھوٹے حکمران ہیں جو روزانہ کی بنیاد پر عوام سے سینکڑوں جھوٹے وعدے کرتے ہیں تو دوسری طرف بیچاری عوام ہے جو ان کے پھسلاوے میں آکر ان کو ووٹ دیتی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ذاتی مفادات کو پیچھے رکھ کر اجتماعی اور ملکی مفادات کو آگے رکھ کر ملک و قوم کے حق میں بہتر حکمرانوں کا چناؤ کیا جائے جو عوام سے وہ وعدے کریں جنہیں وہ پورا بھی کر سکیں۔ بقول اسماعیل میرٹھی:

جھوٹ اور مبالغہ نے افسوس
عزت کھو دی سخنوری کی

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.