ختم نبوت تاریخ کے آئینے میں۔
تحریر۔ پروفیسر احسان اللہ
ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ انبیاءعلیھم السلام کے وہ طویل سلسلہ جو حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا تھا۔
حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہو چکا ہے۔یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی کسی بھی حثیت سے نہیں آسکتا۔ چاہیے رسول ہو ، نبی ہو، امتی نبی ہو یا تشریعی نبی ہو قیامت تک نہیں ائے گا۔ نبوت کا دروازہ بند ہو چکا ہے۔ جوبھی اس عقیدے میں شک کرے وہ اسلام کے دائرے سے خارج ہوتا ہے ان کو مسلمان نہیں کہا جاسکتا ہے بلکہ غیر مسلم ہوگا۔
ختم نبوت پر قرآن کریم میں تقریباسو ایت مبارک موجود ہیں اس میں سب سے مشہور آیات مَا کَانَ م±حَمَّد اَبَا اَحَدٍ مِن رِّجَالِک±م وَلٰکِن رَّس±ولَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّی نَ، وَکَانَ اللّٰہ± بِک±لِّ شَیءٍ عَلِی مًا. (سورة الاحزاب:40 )
ترجمہ: ”محمد نہیں ہے کسی کے باپ تمہارے مردوں میں سے۔ لیکن رسول ہے آ کا اور سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے ہیں اور ہے سب چیزوں کو جاننے والا۔“
جھوٹ نبیوں کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا ہے۔
(صحیح البخاری وصحیح مسلم) .
ترجمہ :حضرت ابوھرہ رضی اللہ عنہ حضورصلی اللہ سے روایت کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگا جب تک تیس کے قریب دجال پیدا ہوکر نہ آئے ہو۔ اور سب کہے نگے کہ ہم اللہ کے رسول ہیں
(صحیح البخاری وصحیح مسلم) .
ان دجالوں میں کچھ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیدا ہوئے اور کچھ بعد میں۔
جن میں ایک مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔ اس نے نبوت کا دعوی کیا تھا۔ وہ 1835 میں ہندوستان کے شہر قادیان میں پیدا ہوا تھا۔
انہوں نے مختلف دعوے کیے تھے امام مہدی ،عیسی موعود اور اخر میں نبوت کا دعوی کیا تھا۔
وہ 1908 میں لاہور میں وفات ہوا۔ لیکن ان کے پیروکار ملک کے مختلف گوشوں میں ابھی تک موجود ہیں۔
ختم نبوت کے بارے مختلف ادوار میں بڑے بڑے تحاریک چلے ہیں اس میں تقریبا دس ہزار مسلمان شہید ہوگئے تھے۔
لیکن آخر کار سنہ 1974 میں ختم نبوت کے موضوع پر قومی اسمبلی میں تمام علماءنے شاہ احمد نورانی رحمہ اللہ کے سربراہی میں مفتی محمود صاحب نے مرزا ناصر نامی (ایم۔این۔ اے) کے ساتھ مناظرے کر کے ان پر کفر کا فتوی لگا دیا۔ مناظرہ میں مرزا ناصر قادیانی نے اپنے غلط عقیدہ کو ثابت نہ کر سکا۔ تو تمام ممبران نے بالاتفاق مرزاغلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکار کو کافر قرار دیا۔اور اس پر قومی اسمبلی سے قانون منظور ہوا کہ نبی کے بعد کوئی کسی بھی حیثیت سے نبوت کا دعوی کرے تو وہ کافر ہوگا۔ بریکٹ میں مرزائی اور لاہوری گروپ لکھا گیا۔ اللہ تعالی کے فضل وکرم وہ باقاعدہ آئین میں درج ہوا۔ اس سے ہمیشہ کے لئے ختم نبوت کا مسئلہ حل ہوا۔
اس مسئلہ پر بہت علماءاور عوام شہید ہوگئے تھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اس طرح واقعات ومعاملات کا مقابلہ و دفاع علماءحق اور مسلمان عوام نے حکومت کے اندر اور باہر خاص کر سیاسی علماءنے احسن طریقے سے کیے اور کر رہے ہیں۔ کیونکہ حکومت جب بھی اغیار کا کوئی ایجنڈا اسمبلی میں پیش کرتاہے تو اس کے مقابلہ میں وہ چند منتخب ایم۔این۔ایز جو مذہب پارٹیوں کے ہیں وہ مخالفت کرکے پاس نہیں ہونے دیتے اور ان کو اس بات سے ڈراتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہم عوام تک لے جائنگے۔ پھر عوام اس کے خلاف نکال کر پر زور احتجاج کرینگے۔ تو حکومت اس سے واپس لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
ناموس رسالت ، ختم نبوت، حدود آرڈیننس ، نصاب سے اسلامی تعلیمات ختم کرنا اور “میرا جسم میری مرضی” کا نعرہ ان سب کا مقابلہ ہم سب کے ذمہ داری بنتی ہیں۔ دین اسلام ہم سب کا دین ہے اور اس کا تحفظ سب پر فرض ہے۔
اس طرح موجود دور میں قادیانیوں کی طرف سے بہت کوشش ہو رہی ہے کہ کسی طریقے سے آئین سے ان کے کفر واقلیت دور کیا جائے مختلف حربے چلا رپے ہیں کھبی اپنی شکایت آمریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو کرتے اور کھبی دوسرے فورم استعمال کر رہے ہیں۔ لیکن تاحال اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوئے۔
موجود حکومت نے ابتدا میں اکنامک ایڈوائزری کونسل میں ڈاکٹر عاطف میاں قادیانی شامل کیا تھا لیکن علماءاور عوام کی بروقت احتجاج سے حکومت نے اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہو گئے۔
موجودہ نازک حالات میں قادیانیوں کو قومی کمیشن برائے اقلیت میں ان سے ممبر لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ آب ایک بار پھر عوام اور علماءکو معلوم ہوا تو سوشل میڈیا مختلف قسم ذرائع ابلاغ اور علماءنے جمعہ کی خطبات میں اس کے خلاف بھر پور آواز آٹھا یا ہے۔
یاد رہے کہ قادیانی خود کو غیر مسلم اقلیت تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی آئین پاکستان کو مانتے ہیں۔ تو اس وجہ سے وہ اقلیت میں شامل کرنا صحیح نہیں اگر اس نے آئین پاکستان تسلیم کیا تو پھر بے شک ان کو نمائندگی ضرور دیا جائے۔
تو لہٰذا حکومت کوچاہیے کہ اپنا فیصلہ پر نظرثانی کرکے فیصلہ واپس لیا جائے۔
پاکستان کے ذرائع ابلاغ، اخبارات ، ٹیلی ویڑن چینلز، سوشل میڈیا، اساتذہ، علماء، پروفسرز، ڈاکٹرز ، ججز، وکلا، جرنلسٹ، وزراءہر شعبے سے تعلق رکھنے والے سب مل کر ” ختم نبوت” اور دین اسلام کے تمام شعائر کی حفاظت ودفاع ہر فورم پر کر لیں اور دشمنان اسلام واغیار کے ایجنڈے، عزائم وارادے خاک میں ملائے۔