کل کے دشمن آج کے دوست کیسے بن گئے ؟
3جولائی 2025 کادن تاریخ میں ایک ایسا دن بطور یادگار رکھا جائے گا کہ اس دن ماضی کے آپس میں رہنے والے دودشمن ممالک روس اورافغانستان میں سے اقوام متحدہ کے سیکورٹی کونسل کی دائمی یامستقل رکن روس نے پہلی دفعہ طالبان کی موجودہ حکومت کوافغانستان کی قانونی اورسرکاری حکومت کے طورپرتسلیم کیا اگرچہ روس نے پہلی بارایک تاریخی موڑ پہ ایک نیاباب رقم کرکے ایک نیا سفارتی سگنل ایک ایسی فتح جوافغانستان کوتنہائی سے نکال کرعزت سے شراکت داربنانے کی طرف ایک بہترین قدم اٹھایا ہے جوکہ یہ قدم تمام مظلوم قوموں کے لئے ہیے اوروہ جودہائیوں سے مغربی تسلط اورغلامی کے نظام سے آزادی کی جدوجہدکررہی ہیں جبکہ روس کی طرف اس پیش رفت کوعالمی استعمارکے خلاف ایک مظبوط ضرب قراردیاجارہا ہے اوریہ اس بات کاکھلا اعلان ہیے کہ اب دنیا زمینی حقائق کوجاننے پرمجبورہورہی ہیے کہ اقوام متحدہ اور او آئی سی جیسے اداروں کو بھی غلامی نہیں بلکہ برابری کااصول اپنانا ہوگا توکیا روس نے مسلم دنیا کی غیرت اورخوداری تسلیم کرکے مسلم دنیا کے مردہ ضمیروں کو جھنجھوڑدیں گے ؟کیا روس کا حالیہ فیصلہ اسلامی ممالک کے منہ پرایک زوردارطمانچہ تونہیں ہیے؟ کیونکہ 57مسلم ممالک میں سے کسی ایک امریکی کھٹ پتلی میں یہ جرائت نہیں کہ وہ موجودہ افغان حکومت کوتسیلم کریں کیا روس کی طرف سے موجودہ عبوری حکومت تسلیم کرنا یہ طالبان حکومت کی بہترین خارجہ پالیسی ہیے کہ وہ روس چین جیسی ابھرتی ہوئی معاشی طاقت ورممالک کے ساتھ تعلقات قائم کررہیے ہیں کیا اب وقت آگیا کہ مسلم امت متحدہوکراپنے فیصلے خودکریں اورعالمی سطح پراپنی شناخت کودوبارہ زندہ کریں ؟ کیا روس کی طرف سے افغان حکومت کو تسلیم کرنا اس بات کی دلیل ہیے کہ ملاصرف میدان جنگ کے کھلاڑی نہیں بلکہ سیاسی میدان کے کھلاڑی بھی ہیں ؟کیاپگڑی اورداڑی پس ماندگی نہیں بلکہ ترقی اورقابلیت کی علامت ہیے؟ کیاروس کی جانب سے طالبان حکومت کوتسلیم کرنا ظاہرکرتاہیے کہ روس افغان عوام کی نہیں بلکہ ایک عسکریت پسندگروپ کی حمایت کرناہیے اوراس تسلیم کامطلب خواتین کے حقوق انسانی حقوق عام طورپرسول سوسائٹی اورافغان عوام کے حقوق سے آنکھیں چرانا ہیے افغان اس دن کوکھبی نہیں بھولیں گے ؟ تاریخ کے اوراق میں یہ بھی لکھا گیا ہیے کہ افغانستان کوتباہ کرنے والا پہلاملک روس ہی تھا اورروس کوشکست دینے والاملک بھی افغانستان ہی تھاتوپھر ایسا کیا جادوطالبان کی طرف روس پرکیاگیا کہ ایک دشمن ملک نے ماضی کے دشمن ملک افغانستان کوتسلیم کرلیا؟ کیایہ وہی افغانستان ہیے جس نے پاکستان اورمغربی ممالک اورعرب ممالک کی مددسے روس کوٹکڑے ٹکڑے کیاگیااب روس اسی افغانستان کوتسلیم کررہاہیے کیوں ؟ کیاروس افغانستان اورپاکستان دیگرمغربی ممالک کی طرف سے دیئے گئے زخم بھول چکا ہے ؟ کہاں ہیں وہ جہادی تنظمیں جو 1979 کے دوران امریکہ عرب و حجم کے کہنے پر روس کے خلاف جہاد فرض کیا تھا؟کیا آج اسلام میں فرق آیاہیں ؟یا اس جہادیوں میں یہ وہی لوگ ہیں جوکھبی شہزادے کھبی دہشت گرد کھبی کیا نام سے جاناجاتاہیں؟ کیا روس کے خلاف افغانستان میں جہادتھا یاسودا؟اگریہ دونوں نہ تھے تویہ فریب تھا ؟اور وہ روس جس نے افغانستان پرقبضے میں یک و نیم ملین افغان شہیدکئے ہیں اس روس سے طالبان فخرکے ساتھ اپنے آپ کوتسلیم کروارہیے ہیں توپھرماضی میں جہاد کس کے خلاف تھا؟امریکہ کے لئے لڑایا گیا یااسلام کے لئے کیا ؟کیا لاکھوں جانیں صرف اس لئے قربان ہوئیں کہ آج پھرانہی قاتلوں سے ہاتھ ملایاجائے ؟ خود طالبان تحریک کاپہلاسپریم لیڈرملامحمدعمرمجاہداوراس کے سرفروشوں نے روس کے خلاف جہادکیا ایک زمانے میں سویت یونین میں کارل مارکس کاطوطی بولتا تھا کیمونزم کی چادرمیں لپٹا الحادی نظام زوروں پرتھا اوریہ نظام جس تیزی سے بڑھ رہاتھا عین ممکن تھا کہ برصغیر کیاپوری دنیا کولپیٹ میں لے لیتا لیکن پھراس کاسامنا سرفروشوں کے ساتھ ہوا ملاعمرجیسے مدارس کے طالبعلموں نے علم جہادبلندکیا امریکہ جوکپیٹلزم کودیکھتا دیکھ رہاتھا اسے امیدنظرآئی کہ پاکستان کے زریعے اسلحہ دیا ایران سعودی بھی امریکی اشارے کے ساتھ ہولیئے اورافغانوں نے کیمونزم کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اورپھربدلتا ہیے آسمان رنگ کیسے کیسے کہ ایک وقت تھا جب افغانستان میں مرگ برروس سفیدریچھ گرم پانی پرقبضہ کی سازش نہ جانے کیاکیا کہانی بیان کی جاتی تھی اورآج اسی روس کے ساتھ پیارکی پینگیں چڑھائی جارہی ہیں اور جہادیوں کی شہدائے کی روحیں جوروس کے خلاف لڑتے لڑتے کیاسوچ رہی ہوگی آج کی یہ حقیقت یہ ثابت کرتی ہیے کہ اسلام ہمیں ثابت قدمی کادرس دیتاہیے کہ اگرآپ حق پرہیں اوراس پرڈٹے رہیں گے توبالاخرکامیابی آپ کامقدربنے گی اورطالبان اپنے نظریات پرقائم رہتے ہوئے افغانستان میں اپنے اندازسے شریعت نافذکی اوراب کچھ ممالک ان کوتسلیم کررہیے ہیں روس کی جانب سے موجودہ طالبان حکومت کوتسلیم کرلیا لیکن افغان عوام نے ابھی تک اس حکومت کوتسلیم نہیں کیا ہیے روس تو چھوڑیں چاہیے پوری دنیا ہی طالبان کی موجودہ حکومت تسلیم کرلیں لیکن جب تک ان کے پاس افغان عوام کی سپورٹ نہیں ہوگی کوئی فائدہ نہیں اب فوری طورپر افغان عوام کی خواہشات کومدنظررکھتے ہوئے اپنی احمقانہ اورافغان دشمن پالیسوں کوترک کرکے افغانوں کی۔سپورٹ اورحمایت کواپنائیں تب جاکرکوئی بات بنے گی روس کے اس فیصلے نے خطے اوردنیا بھر میں بڑے پیمانے پرردعمل کوجنم دیاہیے کچھ لوگوں نے اسے افغانستان کے لئے ایک نیا سیاسی اوراقتصادی موقع قراردیا ہیے جبکہ کچھ لوگ روس کے اقدام کو افغانستان کے لئے ممکنہ تباہی کے آغازکے طورپردیکھتے ہیں بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ یہ قدم افغانستان اورروس کے درمیان وسیع اقتصادی سیاسی اورسیکورٹی تعاون کی راہ ہموارکرے گا اورامیدکی جاتی ہیے کہ مضبوط تجارتی تعلقات سرمائیہ کاری میں اضافہ اوردونوں ممالک میں روزگارکے مواقع میں اضافہ سے افغانستان کی اقتصادی صورتحال کی حدتک مستحکم ہوجائی گی خاص طورپرجب ملک کوشدیداقتصادی بحران کا سامنا ہیے لیکن اس کہانی کادوسرارخ یہ بھی ہیے کہ کچھ لوگوں کوخدشہ ہیے کہ طالبان کوتسلیم کرنے سے خطے میں دیگرانتہاپسندگروہوں کواورحوصلہ ملے گا ان کاخیال ہیے کہ روس کا یہ قدم کومغرب خصوصا” امریکہ کی طرف سے سخت ردعمل کاسامنا کرنا پڑسکتا ہیے جس سے روس پرمذید پابندیاں لگ سکتی ہیں یاافغانستان کے لئے اس کی امداد بندہوسکتی ہیےاس کے علاوہ افغانستان میں روس کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے علاقائی طاقتوں جیسے چین بھارت اورپاکستان کے ساتھ مقابلے کاخطرہ بھی مثال کے طورپر چین کے افغانستان میں بھی اقتصادی مفادات ہیں اوروہ روس کے اثرورسوخ کے پھلاو پرمنفی ردعمل کااظہارکرسکتاہیے روس کے اس اقدام سے طالبان کے خلاف سیاسی مخالفت کم ہوجائے گی خاص طورپران گروہوں کی طرف سے جوبین الاقوامی سفارتی کوششوں میں طالبان کی مخالفت کرتے ہیں سب سے اہم چیزمعشیت کی تعمیرنوہیے اس سے لوگوں کے لئے اندرونی ملک ملازمین پیداہوں گی اورافغانستان تجارتی راستوں میں اہم کرداراداکرے گاروس کاطالبان حکومت تسلیم کرنے سے ممالک کواپنے تعلقات کووسعت دینے اوربغیرکسی پابندیوں کے رسمی معاہدوں پردستخط کرنے کاموقع ملتاہیے اگرچہ خودروس کومغربی پابندیوں کی وجہ سے معاشی دباو کاسامناہیے لیکن وہ پھربھی اپنی قومی کرنسی کوقدردے سکتاہیے اورافغانستان کے ساتھ دوطرفہ معاہدوں کے زریعے طالبان کوبین الاقوامی مالیاتی نظام میں ضم کرسکتاہیے روس چین امریکہ اورمغرب کے دباو سے بچنے کے لئے اپنی قومی کرنسیوں روبل اوریوآن میں تجارت کرتے ہیں روس کی جانب سے موجودہ افغان طالبان حکومت ایک ایسے وقت میں تسلیم کیاگیا ہے کہ دنیادوبڑے گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے ایک طرف امریکہ اوراس کے اتحادی اوردوسری طرف روس چین اوراس کے اتحادی اس بناء پرپیچھلے دوسال میں روئے زمین پرتین بڑی جنگیں لڑی گئی روس یوکرین ایران اسرائیل پاکستان اورانڈیا کے درمیان دونوں اطراف نے جنگ جیتنے کی ویکٹری بنائی گئی لیکن جنگ جیتنے اورجنگ ہارنے والے دونوں دنیا کے۔سامنے ہیے اوردونوں بلاک کے ممالک اپنے اتحادیوں میں سے کسی بھی قیمت پرکمزورنہیں ہونے دے گے طالبان کی موجودہ حکومت کو ایک ایسے حالت میں تسلیم کیاگیا ہے کہ روس طالبان آپس میں ایک جالب اورعجیب تاریخ رکھتا ہیے 1996میں جب افغان طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تواسی روس نے طالبان کے مخالفین اورشمالی اتحاد کو طالبان کے خلاف پیسے اورہتھیار فراہم کررہیے تھے آج کل طالبان کے یہ مخالفین تاجکستان اورمغربی ممالک میں رہتے ہیں لیکن جب امریکہ اورنیٹو نے افغانستان قبضہ کیاگیا توروس نے امریکہ اور نیٹو کاافغانستان پرقبضے کی مخالف کی گئی اورطالبان بھی نیٹواورامریکی قبضے کی مخالفت کی گئی روس داعش کے بھی خلاف ہوگئے طالبان بھی داعش کے خلاف ہوگئے دونوں روس اورطالبان امریکہ اورنیٹو کے خلاف ایک اتحادکیاگیا روس وہ پہلا ملک ہیے جس نے طالبان کے رہنماوں کے نام بلیک لسٹ یادہشت گردوں کی لسٹ سے اس سال اپریل کے مہنے میں نکال دیا گیا روس نے جب سے یوکرین پرحملہ کردیا ہیے وہ ایک قسم کا تنہائی کاشکاربن گیاہیے اورکئی مغربی ممالک نے روس پرپانبدیاں لگائی ہے اس لئے روس دنیا کے کئی مارکٹوں کے لئے ایک راستے کی تلاش میں ہیں خاص کر وہ افغانستان کے معدنیات میں سرمائیہ کاری کرنا چاہتا ہے روس افغانستان اقتصادی اثرورسوخ مضبوط کرنے کی کوشش کررہاہیے کیونکہ دوطرفہ تجارت 3بلین ڈالر تک پہنچ چکی ہیے اوروہ افغانستان کوجنوبی ایشیاکی بڑی منڈیوں کے لئے راہداری کے طورپردیکھتاہیے