برصغیر کے دینی وسیاسی افق پر مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود کے آبدار نقوش۔

0 59

برصغیر کے دینی و سیاسی افق پر اگر کسی شخصیت نے علم و عمل، زہد و سیاست، اور گفتار و کردار کے حسین امتزاج سے ایسا نقش چھوڑا جو آج بھی رہنمائی کا مینار ہے، تو وہ مفکرِ اسلام حضرت مولانا مفتی محمود ہیں۔ آپ نے وطنِ عزیز پاکستان کی سیاست میں اسلامی تعلیمات کی روشنی میں دلیل، وقار، شرافت، باہمی احترام اور تہذیب کے ایسے گہرے نقوش ثبت کیے جو آج کے شور و غوغا سے بھرے دور میں بھی ہر دردِ دل رکھنے والے کے لیے مشعلِ راہ ہیں۔ آپ کی ساری زندگی اسلام کی سربلندی، اس کے عادلانہ نظام کے قیام، اور دینِ حق کے فروغ میں صرف ہوئی۔حضرت مفتی محمود 9 جنوری 1919ئ کو ڈیرہ اسماعیل خان کے گاو¿ں پنیالہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق افغان قوم کے قبیلہ ناصر کی مشہور شاخ یحییٰ خیل سے تھا۔ آپ کے والدِ محترم خلیفہ محمد صدیق افغانستان سے ہجرت کر کے پنیالہ میں آباد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد اور مولوی شیر محمد سے حاصل کی۔ بعدازاں آپ نے مدرسہ شاہی مراد آباد میں چھ سال تک علم کے دریا سے سیرابی حاصل کی۔ درسِ نظامی کے ساتھ ساتھ قرائ تِ سبعہ و عشرہ میں بھی آپ کو کمال حاصل ہوا، حتیٰ کہ آپ علمِ قرائ ت میں ممتاز مقام کے حامل قرار پائے۔تحصیلِ علم سے فراغت کے بعد آپ نے جامعہ عزیزیہ کے نام سے ایک مدرسہ میں تدریس کا آغاز کیا۔ تین سال کے قلیل عرصے میں آپ کے فیضِ علم سے بے شمار شاگرد منور ہوئے۔ آپ کی تدریسی صلاحیتوں کا چرچا جب مدرسہ قاسم العلوم ملتان تک پہنچا تو وہاں کے اربابِ حل و عقد نے آپ کو تدریس کی دعوت دی۔ آپ نے اسے قبول فرمایا — اور یہی لمحہ دراصل آپ کی علمی و سیاسی عظمت کے سفر کا نقط آغاز بن گیا۔سیاسی میدان میں آپ نے جمعیت علمائ اسلام کے پلیٹ فارم سے قدم رکھا اور بعد ازاں تنظیم کے مرکزی جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے۔ 1962ئ میں آپ نے پہلی مرتبہ قومی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا اور ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست سے کامیابی حاصل کی۔ اسمبلی کے فلور پر آپ نے ایوب خان کے غیر اسلامی، غیر جمہوری اور آمرانہ دستور کے خلاف جس جراتِ گفتار کا مظاہرہ کیا، وہ پارلیمانی تاریخ میں آج بھی یاد کیا جاتا ہے۔1970ئ کے عام انتخابات میں آپ نے اس وقت کے وزیرِاعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ڈیرہ اسماعیل خان کی نشست پر شکست دی اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ اس دور میں ملک کو آئین سازی کا سنگین مسئلہ درپیش تھا۔ آپ آئین ساز کمیٹی کے رکن منتخب ہوئے، اور 1973ئ کے دستور میں جتنی اسلامی دفعات شامل ہوئیں، ان میں حضرت مفتی محمود کا کردار بنیاد اور محور کی حیثیت رکھتا ہے۔آپ کا سب سے تابناک کارنامہ وہ تاریخی معرکہ ہے جب آپ نے ختمِ نبوت کے مسئلے پر قادیانی لابی کو علمی دلائل اور قرآنی براہین کی روشنی میں شکستِ فاش دی، اور انہیں آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دلوانے میں قائدانہ کردار ادا کیا۔ یہ خدمتِ جلیلہ نہ صرف پاکستان بلکہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے باعثِ عزت و افتخار ہے۔حضرت مفتی محمود ایک نڈر، متقی اور بااصول سیاستدان تھے۔ آپ نے سیاست کو ذاتی مفاد یا اقتدار کی بجائے عبادت اور خدمتِ خلق کا ذریعہ بنایا۔ جب آپ صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو سادگی و تقویٰ کی ایسی مثال قائم کی جس کی نظیر تاریخ میں کم ملتی ہے۔ آپ نے وزیراعلیٰ ہاو¿س کی مسجد میں خود امامت کا فریضہ انجام دیا۔ عوام جب ملاقات کے لیے وقت طلب کرتے تو فرماتے:“مجھے کسی دربان یا وقت کی حاجت نہیں، مسجد میں نماز کے لیے آجاو¿۔ میں نماز بھی پڑھاو¿ں گا اور تمہارے مسائل بھی وہیں حل کروں گا۔”چنانچہ دنیا نے دیکھا کہ وزیراعلیٰ ہاو¿س کی مسجد میں وہ امام بھی تھے، خطیب بھی، اور عوامی خدمت کے لیے سراپا نمونہ بھی۔ ایسا طرزِ حکمرانی صرف اسی شخص کے حصے میں آتا ہے جس کے دل میں اللہ کا خوف اور بندوں سے خلوص ہو۔خطابت کے میدان میں آپ کا انداز دلائل سے لبریز، بیان میں سنجیدگی، اور لہجے میں روحانی وقار رکھتا تھا۔ بڑے سے بڑا مخالف بھی آپ کی گفتگو سن کر خاموشی اختیار کر لیتا۔ آپ کے الفاظ میں علم کی خوشبو، اخلاص کی چمک، اور یقین کی حرارت ہوتی تھی۔ آپ کی ذات ایک سچے عاشقِ رسول کی تھی، جو بیماری، سفر اور مصروفیت کے باوجود سنتِ نبوی کے التزام سے غافل نہ ہوتے۔قیامِ پاکستان کے بعد آپ نے مدرسہ قاسم العلوم ملتان میں تدریس و افتائ کا آغاز کیا۔ جلد ہی آپ شیخ الحدیث اور مفتی کے منصب پر فائز ہوئے۔ فقہ و فتویٰ کے میدان میں آپ کا نام سند بن گیا۔ آپ نے تقریباً چالیس ہزار سے زائد فتوے صادر کیے، جنہیں علمی و فنی اعتبار سے کبھی چیلنج نہیں کیا گیا۔ آپ کی باریک بینی، وسعتِ نظر، اور نکتہ سنجی کے قائل آپ کے ناقدین بھی تھے۔حضرت مفتی محمود کا شمار اس صدی کے ان نابغہ روزگار علمائ میں ہوتا ہے جو نہ صرف دینی علوم بلکہ قانون، فلسفہ، سیاست، ادب اور سائنس جیسے موضوعات پر بھی گہری نظر رکھتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر آپ کو غیر معمولی دسترس حاصل تھی۔سیاست کے میدان میں آپ کا کردار تاریخ کا روشن باب ہے۔ آپ نے برصغیر کی تقسیم سے قبل ہی برطانوی استعمار کے خلاف تحریکِ آزادی میں عملی حصہ لیا۔ قیامِ پاکستان کے بعد جب سیاست و معیشت پر مخصوص مفادات کے حامل طبقے نے قبضہ جمالیا اور علمائے حق کو مساجد و مدارس تک محدود کرنے کی کوشش کی، تو انہی نامساعد حالات میں 1956ئ میں حضرت مفتی محمود نے ایک مردِ مومن کی طرح سیاسی میدان میں قدم رکھا۔ بغیر وسائل، بغیر پروپیگنڈہ، مگر ایمان کے زادِ راہ کے ساتھ۔ آپ نے اپنے وقار، علم، توازن اور شائستگی سے یہ تسلیم کروایا کہ علمائ کی آواز قوم کی رہنمائی کے لیے ناگزیر ہے۔مفتی محمود ہر موقع پر اسلام کی بات کرتے، اور جہاں قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت ضروری سمجھتے، وہاں مصلحت یا نرمی کے بجائے حق گوئی کو ترجیح دیتے۔ مختلف حکمران آئے، مگر آپ ہر دور میں اصول و دیانت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ مدرسے کے مولوی کو حقیر سمجھنے والے معاشرے نے دیکھ لیا کہ وہی عالم، جب میدانِ سیاست میں اترا، تو جدید تعلیم یافتہ طبقے میں بھی قیادت و بصیرت کا استعارہ بن گیا۔آپ کا سیاست میں عروج اس وقت اپنی انتہا کو پہنچا جب آپ پاکستان قومی اتحاد کے سربراہ منتخب ہوئے۔ نو سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر آپ کو قیادت سونپی، اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ آپ کی رائے، بصیرت اور شخصیت قومی سطح پر متفقہ احترام کی حامل بن چکی تھی۔1919ئ میں ڈیرہ
اسماعیل خان کی پاکیزہ سرزمین پر طلوع ہونے والا یہ علم و عمل کا سورج چودہ اکتوبر 1980ئ کو کراچی میں غروب ہوا۔ مگر آپ کی روشن کرنیں آج بھی اہلِ علم و اہلِ ایمان کے دلوں کو منور کر رہی ہیں۔حضرت مولانا مفتی محمود کا نام علم، تقویٰ، استقامت اور سیاسی بصیرت کا مرقع ہے۔ آپ نے دین و سیاست کے سنگم پر کردار کی وہ شمع روشن کی جو کبھی بجھنے والی نہیں۔ قومیں جب اپنے راستے کھو دیتی ہیں تو انہیں ایسے ہی چراغ یاد آتے ہیں جو نہ صرف راہ دکھاتے ہیں بلکہ کردار کی حرارت بھی عطا کرتے ہیں۔ مفکرِ اسلام مفتی محمود کا تذکرہ محض ماضی کی یاد نہیں، بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے پیغامِ راہ ہے — کہ سیاست جب عبادت بن جائے تو قومیں سنور جاتی ہیں، اور جب علمائ کردار بن جائیں تو تاریخ سنہری ہو جاتی ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.