“آو مریخ پر جا بسیں”
تحریر: اعجازعلی ساغر اسلام آباد
میں نے یہ کالم کچھ دن پہلے ہی لکھنے کا ارادہ کیا لیکن کچھ مصروفیات کی وجہ سے Delay ھوگیا اس کی وجہ یہ تھی کہ کشمور میں ایک دل سوز واقعہ رونما ھوا جسکی ابتدائی اطلاعات موصول ھوئیں کہ ماں بیٹی کے ساتھ کچھ درندوں نے زیادتی کی ہے۔ میں اس واقعے کی تفصیل معلوم کرکے اپنے کالم کا آغاز کرنا چاہتا تھا تاکہ جو عنوان میں نے اپنے کالم کا دیا ہے اس میں شامل واقعات سے دنیا آگاہ ھوسکے
کہ آخر میں ایسا کیوں کہہ رہا ھوں۔ واقعہ یہ تھا کہ کشمور میں ایک عورت تبسم بی بی کو کچھ افراد نے پولیس میں نوکری کا جھانسہ دیا اور اسے گھر بلایا وہ بیچاری اپنی چار سالہ بیٹی علیشہ کیساتھ وہاں جا پہنچی ان ملزمان نے گھر میں دونوں ماں بیٹی کو زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا ملزمان خیر? اور رفیق ملک کئی روز دونوں کو زیادتی کا نشانہ بناتے رہے
اور پھر اس شرط پر تبسم بی بی کو چھوڑا کہ مجھے کوئی اور لڑکی یا عورت لاکر دو اور اپنی بیٹی لے جاو ¿۔ تبسم بی بی نے پولیس کو اطلاع دی جس کے اے ایس آئی محمد بخش نے انتہائی ذمہ داری کا ثبوت دیتے ھوئے ایک پلان ترتیب دیا پہلے ملزمان سے اپنی بیوی کی بات کروائی اور پھر بیٹی کو بھی ان عیاش مگر عیار ملزمان کو پکڑنے کیلئے پیش کردیا۔
یہ ایک فلمی سین کی طرح اسٹوری تھی خیر اس بہادر لڑکی کی وجہ ملزم رفیق ملک گرفتار ھوگیا اور علیشہ کو بازیاب کروا لیا گیا۔جب پولیس کے سامنے ماں نے اپنی بیٹی کی حالت دریافت کی تو چار سالہ علیشہ نے روتے ھوئے شلوار اتار دی اور بتایا کہ ملزمان لگاتار اس سے زیادتی کرتے رہے۔ علیشہ نے شلوار اتار کر اس پورے معاشرے کو ننگا کردیا اور وہ طمانچہ مارا جو پورے پاکستان کی 22 کروڑ عوام کے گالوں پر ھمیشہ کیلئے ثبت ھوگیا۔ پہلے میرا ارادہ تھا کہ میں اپنے کالم میں ٹارگٹ کلنگ اور اسٹریٹ کرائم کی بڑھتی ھوئی واردات کا ذکر کروں گا کہ کس طرح تمام پاکستانی Unsafe سے ھوتے جارہے ہیں اور اداروں کی کارکردگی دن بدن خراب سے خراب تر ھوتی جارہی ہے
لیکن کشمور واقعے کے بعد میں نے ارادہ بدل دیا ہے اور اسی عنوان سے میں نے ریپ کیس کے بڑھتے ھوئے واقعات پر کالم لکھنے کا فیصلہ کیا۔ ریپ کیس کوئی نئی بات نہیں ہے یہ سلسلہ سالہا سال سے جاری ہے یہ پہلے رپورٹ نہیں ھوتے تھے لیکن قصور کی ننھی پری زینب کے واقعے نے ہلچل مچادی اور پورے پاکستان کو ہلاکر رکھ دیا اس واقعے میں ملوث سفاک مجرم عمران کو پھانسی لگادی گئی مگر عالمی سطح پہ پاکستان کا امیج بہت ڈاو ¿ن ھوا۔ اس واقعے کے بعد قانون سازی ھوئی اور زینب الرٹ بل منظور ھوگیا لیکن اسکے باوجود اسطرح کے واقعات میں کمی نہ آئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ قانون سازی ھونے کے باوجود آئے روز ایسے واقعات ھورہے ہیں
اور ننھی کلیاں مسلی جارہی ہیں اس طرح کے واقعات پورے ملک میں سے رپورٹ ھونے لگے ہیں۔ سانحہ موٹروے کو ہی لے لیں کہ کسطرح فرانس پلٹ خاتون کو بچوں کے سامنے زیادہ کا نشانہ بنایا گیا اور پھر پورے پنجاب کی پولیس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن مرکزی ملزم کو گرفتار نہ کیا جاسکا جدید سے جدید سسٹم بھی مرکزی مجرم عابد ملہی کی نشاندہی نہ کرسکا اور بالاخر پولیس نے روایتی طریقہ اپنایا اور ان کے گھر کی خواتین اور بچوں کو حراست میں لیا گیا اور انہیں ٹارچر کیا گیا جس کےبعد عابد ملہی نے گرفتاری دی۔ اس کے بعد پنجاب پولیس پر انعامات کی بارش کردی گئی حالانکہ پولیس اس کیس میں مکمل طور پر ناکام ھوگئی تھی یہ صرف پولیس کی ناکامی نہیں تھی بلکہ پورے سسٹم کی ناکامی تھی جوکہ اداروں اسپیشلی پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔
ہندوستان کے لیڈر گاندھی جی کی میں اکثر ایسے واقعات میں مثال دیتا ھوں کہ انہوں نے کہا تھا کہ میں بھارت دیش کو اس وقت آزاد سمجھوں گا جب میرے دیش کی ناری آدھی رات کو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اکیلی جائے گی اور خیر خیریت سے واپس آئے گی افسوس گاندھی جی کے دیش بھارت میں ناری محفوظ ہے نہ ہی جناح کے دیش پاکستان میں۔ یہ سلسلہ آخر کب تک چلے گا کب گاندھی اور جناح کے دیش کی ناریاں حوس پرست درندوں سے محفوظ ھوں گی کیا زمین ان کیلئے غیر محفوظ ھوگئی ہے بنت حوا آخر جائے تو کہاں جائے؟ ھم اکثر مختلف اداروں میں جاتے ہیں
وہاں کام کرنیوالی اکثر خواتین کو مردوں کی جانب سے ہراسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ ان درندوں کو اپنی عزت کی نیلامی کرنے دیں ایسا ہی ایک واقعہ پیش کررہا ھوں جو ایک نہتی مگر مضبوط اعصاب کی مالک لڑکی کا ہے صائمہ کو اس کا شوہر چھوڑ کر چلا گیا وہ اپنی ماں کے گھر پر آگئی اور پرائیویٹ اداروں میں کام کرکے اپنے اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے لگی اس بہادر لڑکی نے عزت کی نیلامی کی بجائے محنت کو ترجیح دی اور مختلف دفاتر میں کام کرنے لگی مگر اسے یہاں ابن آدم کی طرف سے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ قدم قدم پہ حوس کے یہ پجاری مختلف روپ دھار کر کبھی سرکاری نوکری کا جھانسہ دیکر تو کبھی کوئی آفر کرکے اسکی عصمت کے پیچھے پڑ گئے
ایک دن میں نے اس سے سوال کیا کہ آپ ان درندوں کیخلاف پولیس یا ہیومن رائٹس کے اداروں میں رپورٹ کیوں نہیں کرتیں انہوں نے ایک لمبی سانس لی اور کہا کہ میں عورت زاد ھوں یہ واقعہ جیسے رپورٹ ھوگا میرا گھر سے نکلنا ہی بند ھوجائے گا اور اگر میں کماو ¿ں گی نہیں تو میرا گھر کیسے چلے گا۔ اسی طرح شاید آپ کو یاد ھو کہ کچھ عرصہ پہلے ایک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کی بس ھوسٹس کو چھٹی کے بعد گولی مار دی گئی واقعہ میڈیا پر آیا اور تحقیات ھوئیں تو پتہ چلا کہ اسی کمپنی کا گارڈ اس سے چھیڑ چھاڑ کرتا تھا اور ہراساں کرتا تھا اور اسکو دوستی کرنے کا کہتا تھا جو اس لڑکی نے جب اسکی بات نہ مانی جسکی وجہ سے طیش میں آکر اس نے لڑکی کو گولی مار دی بعد میں پتہ چلا کہ وہ لڑکی گھر کی واحد کفیل تھی اور گھر چلانے کیلئے گھر سے باہر نکلی تھی۔اس طرح کے واقعات سے ہسٹری بھری پڑی ہے جو ابن آدم کی مردانگی پر ایک زور دار تھپڑ ہے اب تو نوبت اس سے بھی بڑھ چکی ہے کہ رشتوں کا تقدس ہی ختم ھوچکا ہے اب بھائی سے بہن اور ماں اور باپ سے بیٹی محفوظ نہیں
کچھ روز پہلے راولپنڈی میں ایک واقعہ رپورٹ ھوا ہے جس میں تین سگے بھائی اپنی بہن کیساتھ منہ کالا کرتے رہے ان کی ایک ہمسائی کو شک گزرا تو اس نے معلومات لیں تو یہ سب ایکسپوز ھوئے اگر موجودہ صورتحال کو دیکھیں اور پھر یزید کی ہسٹری پر نظر دوڑائیں تو سب کچھ same ہی نظر آتا ہے مولا امام حسین علیہ سلام اور یزید ملعون کی لڑائی کوئی اقتدار کی اور تخت کی لڑائی تھوڑی تھی وہ یہی لڑائی تھی وہ ملعون چاہتا تھا کہ میرے ان ناجائز کاموں کو بھی جائز قرار دیا جائے اور ان ناجائز کاموں کو شریعت کا حصہ بنایا جائے مولا امام حسین علیہ سلام نے سر کٹا کر یزیدیت کو ھمیشہ کیلئے مردہ باد کردیا وہ لوگ جو اسطرح کے گھناو ¿نے کاموں میں ملوث ہیں وہ موجودہ دور کے یزید ہیں۔
ابن آدم کی وجہ سے بنت حوا کا جینا محال ہے زمین ان کیلئے تنگ پڑتی جارہی ہے شاید اب بنت حوا کو مریخ کا رخ کرنا پڑے کیونکہ زمین پر حوا کی بیٹی کا رہنا مشکل ھوگیا ہے۔
وزیراعظم پاکستان عمران خان اور اس ریاست کو ایسے مجرموں کیخلاف سخت اقدامات کرنے ھوں گے اور جزا و سزا کے عمل کو سخت کرنا ھوگا کیونکہ جب تک ایسے درندوں کو سرعام نہیں لٹکایا جاتا تب تک ایسے واقعات میں کمی نہیں آسکتی۔ بنت حوا کو چاہیئے کہ وہ ابن آدم کے اس گندے اور گھناونے روپ کو رپورٹ کریں اور متعلقہ اداروں کو ایسے درندوں کی فی الفور شکایت کریں
تاکہ ان کی حوصلہ شکنی ھو مرد ذات کی طاقت عورت کی خاموشی میں چھپی ھوتی ہے لہذا خدارا اس طرح کے واقعات میں خاموش نہ رہیں آپ کی بولنے کی طاقت سے ایسے عناصر کو شکست دی جاسکتی ہے کشمور واقعہ سے ھم سیکھیں اور معصوم علیشہ سے واعدہ کریں کہ آج کے بعد کوئی اور علیشہ کسی کی درندگی کا شکار نہیں ھوگی اور جناح کے پاکستان میں ناری ہر طرح سے محفوظ ھوگی۔