ٹونٹی ٹونٹی بدترین سال

0 127

تحریر۔حمادرضا
نومبر کا مہینہ اپنی نصف کے قریب مسافت طے کر چکا ہے اور ہم تیزی سے سال کے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں خدا وند تعالی کا ایک خاص نظام ہے جس طرح زندگی کے شب و روز رات اور دن میں تبدیل ہوتے ہیں اسی طرح ہر سال بھی اپنے ساتھ کچھ اچھی اور کچھ بری یادوں کے انمٹ نقوش چھوڑ کر اختتام پذیر ہو جاتا ہے لیکن دو ہزار بیس انسانی تاریخ میں ایک ایسا سال کہلائے گا جسے شاید ہی کوءاپنے لیے خوش بختی کا سال تصور کرےاور شاید ہی اسے کوءبھلا پائے ٹونٹی ٹونٹی کو کرونا کی تباہ کاریوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائےگا اس سال نے جہاں انسان کو زندگی کے دردناک پہلوو ¿ں سے روشناس کروایا وہیں کرونا جیسی آفت نے لوگوں کی زندگی گزارنے کا انداز یکسرّ بدل کے رکھ دیا ہے بہت سے لوگوں کو اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھونا پڑے جن کے شائد اس سال کے اوائل میں کبھی وہم و گمان میں بھی نا رہا ہو گا کہ وہ اس سال کا آخری سورج غروب ہوتا ہوا اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ پائیں گے کرونا وائرس نے جہاں زندگی کے تمام شعبہ جات سے منسلک افراد کو متاثر کیا وہیں اہلِ صحافت اور شوبز کی شخصیات بھی اس کے کاری وار سے نا بچ پائیں پہلے استادِ صحافت ڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے اس موذی وائرس کا شکار ہو کر اس جہان فانی سے کوچ کیا اور اہلِ صحافت کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سوگوار کر گیے ابھی یہ غم تازہ ہی تھا کہ ارشد وحید چودھری کی وفات نے دل کو مزید افسردہ اور دل گرفتہ کر دیا ہے بلاشبہ دونوں کی موت صحافتی حلقوں میں کسی سانحے سے کم نہیں ہے لیکن انسان اللہ پاک کے بنائے ہوئے قانون کے آگے بے بس ہے جو روح زمین پر آءہے اسے واپس بھی جانا ہے صحافتی حلقوں میں دیگر افراد جو اس موذی بیماری سے نبرد آزما رہے ان میں سہیل وڑائچ اور مشہور کالم نگار عامر خاکوانی بھی شامل تھے دونوں کو اللہ پاک نے صحتِ کاملہ سے نوازا شوبز نس سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کی اگر بات کی جائے تو مرزا شاہی بھی اس موذی مرض کا شکار ہو کر داغِ مفارقت دے گیے مشہور اداکارہ روبینہ اشرف بھی موت کے منہ سے واپس آئیں ہیں بد قسمتی سے ابھی بھی خطرہ ٹلا نہیں ہے اب کرونا کی دوسری لہر کی باتیں کی جا رہی ہیں دنیا آج بھی اس کے سامنے بے بس ہے ایک خاموش خوف ایسے جیسے اندر ہی اندر سب کو کھائے جا رہا ہے ہر جگہہ ایک آسیب زدہ ماحول ہے پوری دنیا دم سادھے بیٹھی ہے اور یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ کسی طرح اس منحوس سال کو اپنی زندگیوں سے نکال باہر کرے ہمیں ابھی بھی سخت احتیاط کی ضرورت ہے ہو سکتا ہے اگلا شکار خدانخواستہ ہم خود یا ہمارا کوءپیارا بھی ہو سکتا ہے سال تو آتے جاتے رہیں گے لیکن دو ہزار بیس کی تباہ کاریاں انسانی تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر رہیں گی۔
خدا کرے میری زندگی میں نا یوں وقتِ وصال آئے
سال تو بہت آیئں مگر اس جیسا نا کوء سال آئے

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.