ملک و قوم کی ترقی کا پوشیدہ امر

0 243

تحریر : آفتاب احمد ساسولی

لارڈ سالسبری ( 1903-1830 ) ملکہ وکٹوریہ کے زمانہ حکومت میں وزیراعظم تھے ۔ اس زمانے میں کار کا رواج نہ تھا ۔ وزیراعظم سالسبری اپنی سائیکل پر سوار ہوکر جارہے تھے ۔ ایک مقام پر وہ سڑک کے غلط رخ سے گزرنے لگے ۔ سڑک پر متعین کانسٹیبل نے انہیں روک لیا ۔ سالسبری نے کانسٹیبل سے کہا میں وزیراعظم ہوں اور کسی ضروری کام پر جانے کی وجہ سے مجھے ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرنی پڑی ۔ کانسٹیبل نے جواب دیا میں بھی اپنی ڈیوٹی بجا لانے والا کانسٹیبل ہوں ۔ میرا فرض ہے کہ میں ہر اس شخص کو خبردار کروں جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے ، ۔ اور آپ بھی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والوں میں شامل ہے ۔ چوں کہ آپ ایک سفیدریش بزرگ اس لئے میں آپ کو چالان تو نہیں کرتا مگر آپ کو یہ راستہ بدل کر درست سمت میں جانا ہوگا ۔ وزیراعظم نے بغیر کسی توقف کے کانسٹیبل کا حکم مان لیا اور اپنی سائیکل لے کر درست سڑک پر چل دیا ۔ نیز وزیراعظم سالسبری نے اس واقعہ کا ذکر ملکہ وکٹوریہ کے پرسنل سیکریٹری سے کر کے اس فرض شناس کانسٹیبل کو خراج تحسین پیش کیا ۔

ایک اور واقعہ توجہ طلب ہے ۔ برطانیہ کے دوسرے وزیراعظم مسٹر بالڈون ( 1947-1867 ) اپنی کار میں سفر کر رہے تھے ۔ ایک چوراہے پر اس کی کار رکی ۔ ٹریفک کی قطار میں ان کی گاڑی باقی گاڑیوں سے کافی پیچھے تھی ۔ جب راستہ کھلا تو ڈرائیور نے دیگر گاڑیوں سے قبل ہی وزیراعظم کی گاڑی کو آگے نکالنے کی کوشش کی ۔ ٹریفک کانسٹیبل نے فی الفور انہیں روک لیا ۔ ڈرائیور نے کہا وزیراعظم کو کسی سرکاری کام کی وجہ سے جلدی ہے ۔ کانسٹیبل نے جواب دیا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ گاڑی میں کون بیٹھا ہوا ہے ۔ اور اسے کیا کام ہے ۔ میرا کام ہر اس شخص کو روکنا ہے جو ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔ مزید یہ کہ ٹریفک قوانین کی پابندی کرنا وزیراعظم اور عام شہری دونوں پر لازم ہے ۔ یہ سن کر وزیراعظم نے گاڑی سے اتر کر کانسٹیبل سے معافی مانگی اور ڈرائیور کو ہدایت دی کہ وہ کانسٹیبل کی حکم کی تعمیل کرے ۔

اس کے برعکس اگر پاکستان میں کوئی حکومت کا بندہ ، آفیسر یا کوئی مشہور شخصیت اپنی گاڑی میں کہیں جانے کا ارادہ کرتا ہے ۔ اس کی گاڑی میں بیٹھنے سے قبل ہی روڈ کو عام افراد کے لئے بند کیا جاتا ہے اور اس وقت تک نہیں کھولا جاتا جب تک اس کی گاڑی وہاں سے گزر نہیں جاتی ۔ پھر چاہے افراد کو کتنے ہی بڑے مسئلے درپیش کیوں نہ ہو ۔ اگر کسی کا قوم راہنما اصولوں کی پاسداری نہیں کرتا تو عام آدمی کیسے اصولوں کے آگے جھک سکتا ہے ۔ راہنما اصولوں پر مصالحت کا راستہ اختیار کرے ، اصولوں کے سامنے سر تسلیم خم ہوجائے اور قوانین کی پاسداری کرے ۔ تو قوم اصولوں کے آگے جھکنے والی بن جاتی ہے ۔ اور یہی کسی قوم کی ترقی کا سب سے بڑا راز ہے ۔

پاکستانی قانون پر ارسطو کا یہ قول بالکل برابر آتا ہے ” قانون مکڑی کا وہ جالا ہے جس میں صرف حشرات یعنی چھوٹے ( کیڑے ، مکوڑے )جانور پھنس جاتے ہیں جبکہ بڑے جانور اس پھاڑ کر نکل جاتے ہیں ” پاکستان میں قانون محض عام آدمی پر لاگو ہوتا ہے ۔ قوم کے راہنما جرم کرنے کے بعد قانون کو اس طرح روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں جیسے بڑے جانور مکڑی کے جالے کو ۔
یہاں پہ غریب و مظلوم عوام کو ہی سزا کا مستحق سمجھا جاتا ہے جب کسی عام آدمی سے کوئی جرم سرزد ہوتا ہے ۔ اس کو فوراً ہی سزا دیا جاتا ہے ۔ مگر یہی جرم کوئی مشہور شخص کرے ۔ اس کو اوّل سزا نہیں دیا جاتا اگر اس عدالت میں بلایا بھی جائے تو اس شخص سزا کو سنانے کے لئے برسوں لگ جاتے ہیں ۔

ان ہی وجوہات کی باعث ہماری قوم و ملک ترقی نہیں کر پا رہی ہیں ۔ یہاں پہ عام افراد جب راہنما حضرات کو قانون روندتے ہوئے دیکھتے ہیں ، تو وہ بھی قوانین کی خلاف ورزی کرنے لگ جاتے ہیں ۔ یہاں مجرم کو پتہ ہے کہ جرم کرنے کے بعد وہ کسی نہ کسی طرح سزا سے بچ جائے گا ۔ اس سوچ کے باعث مجرم جرم کرتے وقت یا قوانین کو توڑتے وقت بالکل بھی ہچکچاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ۔ اگر یہ سلسلہ چلتا رہا ، نہ قوم اور نہ ہی ملک طاقتور بن سکتا ہے ۔

ملک و قوم کی سلامتی کے لئے قانون کا ہر شخص پر لاگو ہونا ضروری ہے۔ ہر فرد کو خواہ وہ عام آدمی ہے یا کوئی شاہی افسر سزا ملنا چاہیے جو جرم کرتا ہے یا کسی جرم میں شریک ہوتا ہے ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.