اورنگزیب عالمگیرؒ — عدل و تقویٰ کا مینار
تاریخِ ہند کے اوراق جب پلٹے جاتے ہیں تو مغل بادشاہوں کا ذکر جاہ و جلال، محلات اور فتوحات کے ساتھ ملتا ہے۔ لیکن انہی بادشاہوں میں ایک ایسا فرمانروا بھی گزرا جس کی عظمت کا راز محلات کی چمک دمک میں نہیں بلکہ اس کی دینداری، عدل اور سادگی میں پوشیدہ ہے۔ وہ بادشاہ اورنگزیب عالمگیرؒ تھے۔
ایک مختلف حکمران
شاہجہان کے بیٹے اور ممتاز محل کے فرزند ہونے کے باوجود عالمگیرؒ نے زندگی کے لیے وہ راستہ اختیار کیا جو دوسرے بادشاہوں سے بالکل مختلف تھا۔ جہاں باقی بادشاہ دنیاوی شان و شوکت کے دلدادہ تھے، وہیں عالمگیرؒ نے اپنی اصل پہچان تقویٰ، سادگی اور خدمتِ خلق کو بنایا۔ وہ نہ محلاتی عیش و عشرت میں کھوئے اور نہ ہی دنیاوی نمود و نمائش میں۔
دین داری اور انصاف پسندی
ان کے دور حکومت کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے اسلامی قوانین کے نفاذ کو اپنی ترجیح بنایا۔ رشوت، جوا، شراب اور دیگر برائیوں کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ ان کی سرپرستی میں “فتاویٰ عالمگیری” مرتب ہوئی جو اسلامی فقہ کا ایک عظیم سرمایہ ہے۔ وہ اپنے فیصلوں میں عدل و انصاف کو سب سے مقدم رکھتے تھے اور یہی وجہ ہے کہ رعایا انہیں اپنا حقیقی خیر خواہ سمجھتی تھی۔
سادہ زندگی کی مثال
دنیا کی سب سے بڑی سلطنت پر حکمرانی کرنے والا یہ بادشاہ اپنی روزمرہ ضروریات کے لیے خود محنت کرتا تھا۔ وہ اپنے ہاتھ سے ٹوپیاں سی کر فروخت کرتے اور قرآن پاک لکھ کر اس کی اجرت سے گزارا کرتے۔ یہی نہیں بلکہ انہوں نے وصیت کی کہ میری تدفین سادہ ہو اور کفن اسی کپڑے کا ہو جو میں نے اپنے ہاتھوں کی محنت سے خریدا ہے۔ دکن کے علاقے خلد آباد میں ان کا مزار آج بھی گواہ ہے کہ اصل عظمت سادہ قبروں اور نیک اعمال میں ہے، نہ کہ سنگِ مرمر اور سنہری گنبدوں میں۔
تاریخ کا سبق
عالمگیرؒ کی زندگی کا سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ طاقت، دولت اور بادشاہت کا اصل مقصد رعایا کی خدمت اور عدل کا قیام ہے۔ انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کیا کہ تخت و تاج کی اصل زینت تقویٰ اور انصاف ہے۔ اگر آج کے حکمران بھی ان کے طرزِ حکمرانی سے رہنمائی لیں تو معاشرے میں عدل قائم ہو اور رعایا سکون و خوشحالی کی زندگی گزار سکے۔
نتیجہ
اورنگزیب عالمگیرؒ کی شخصیت تاریخ کے اوراق میں ایک درخشاں چراغ کی مانند ہے جو آنے والی نسلوں کو یہ سبق دیتا ہے کہ حکمرانی کا اصل معیار دنیاوی جاہ و جلال نہیں بلکہ خدمت، سادگی اور انصاف ہے۔ ان کا مزار آج بھی خاموش زبان میں یہ پیغام دیتا ہے کہ انسان کا اصل وقار اس کے اعمال میں ہے، نہ کہ اس کی دولت یا محلوں میں۔