نواز شریف پاکستانی قوم کے مسیحا

0 209

کوئی نہیں جانتا تھا کہ 25 دسمبر 1949ء کو لاہور میں میاں محمّد شریف کے گھر میں پیدا ہونے والا نواز شریف نامی بچہ مستقبل میں پاکستان کی سیاست میں منفرد مقام حاصل کر لے گا اور پاکستان کی سیاست میں بہت زیادہ اثر انداز ہونے والی شخصیت بن جائے گا۔نواز شریف کے والد گرامی ایک بڑے بزنس مین اور انتہائی نیک انسان تھے، جنہوں نے اپنے چھوٹے سے لوہے کاروبار سے اپنی محنت، لگن کے بل بوتے پر اتنی ترقی کی کہ اتفاق فاؤنڈری کی بنیاد رکھی جس نے بعد میں اتفاق گروپ کی شکل اختیار کر لی۔ میاں محمد شریف کے کل تین بیٹے تھے جن میں نواز شریف، شہباز شریف اور عباس شریف شامل ہیں۔ یہ قدامت پسند اور مشرقی روایات کا حامل خاندان تھا شریف فیملی پنجابی کشمیری فیملی ہے نواز شریف نے اپنی ابتدائی تعلیم سینت ایتهنی ہائی سکول لاہور سے مکمل کرنے کے بعد گورمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور سے گریجویشن مکمل کی اور پھر پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ہی قانون کی ڈگری حاصل کی۔ نواز شریف نے اپنی سیاست کا آغاز اس دور میں کیا جب شریف خاندان کے اسٹیل کے کاروبار سمیت کئی صنعتوں کو اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیشنلائز کر لیا تھا۔ 1976ء میں نواز شریف نے پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی۔ جنرل ضیاء الحق کی حکمرانی میں نواز شریف پہلے بطور وزیر خزانہ پنجاب کابینہ کا حصہ بنے اور 1981ء میں انہوں نے پنجاب مشاورتی بورڈ میں شمولیت اختیار کی۔ غلام جیلانی خان نے نواز شریف کو پنجاب حکومت کا وزیر خزانہ بنایا۔ جس کے بعد 1985ء میں نواز شریف پنجاب کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے جبکہ 1988ء میں مارشل لاء کے اختتام پر وہ دوبارہ وزیراعلیٰ پنجاب بنے، اگست 1988ء میں ضیاء الحق کی موت کے بعد پاکستان مسلم لیگ دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی اور پاکستان مسلم لیگ کا چارج نواز شریف نے سنبھال لیا یہ جماعت بعدازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) کہلائی۔ نومبر 1990ء میں وہ پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بنے تاہم 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے انہیں ان کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ عدالت عالیہ نے ان کی حکومت بحال کر دی تاہم ملک کی صورت حال کے پیش نظر انہیں اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا۔ فروری 1997ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں وہ دوسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے تاہم 12 اکتوبر 1999ء کو انہیں مسلح افواج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے ان کے عہدے سے برطرف کر دیا اور خود حکومت سنبھال لی۔ دسمبر 2000ء میں حکومت سعودی عرب کی درخواست پر حکومت پاکستان نے انہیں جلاوطن کر کے سعودی عرب بھیج دیا جہاں سے وہ نومبر 2007ء میں وطن واپس آئے۔ فروری 2008ء کے عام انتخابات میں ان کی سیاسی جماعت مرکز میں تو اکثریت حاصل نہ کر سکی تاہم وہ پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ 2013ء کے عام انتخابات میں نواز شریف کی پارٹی پاکستان مسلم لیگ (ن) ایک بار پھر کامیاب ہوئی۔ اس طرح نواز شریف 5 جون 2013ء کو تیسری بار پاکستان کے وزیراعظم بن گئے۔ نواز شریف کو 2018ء کے انتخابات سے دور رکھنے کے لیے پاناما، اقامہ اور دیگر جھوٹے کیسز کا سہارا لے کر جیسے تیسے کر کے عمران خان کو وزیراعظم بنایا گیا۔ نواز شریف نے اپنی سیاسی زندگی میں کئی نشیب و فراز دیکھے ہیں اپنے سیاسی سفر میں وہ اٹک جیل اور جلاوطنی دیکھ چکے ہیں۔ آج پھر وہ ایک اہم دوراہرے پر کھڑے ہیں۔ ان کے مستقبل کا فیصلہ تو وقت ہی کرے گا لیکن ان کی اب تک کی سیاسی زندگی سب کے سامنے ہے۔ جتنے ڈویلپمنٹ کے کام نواز شریف کے دور میں ہوئے ہیں کسی دور میں نہیں ہوئے، سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال، موٹروے، فلائی اوور، انڈر پاس، بجلی کے کارخانے، سی پیک اور دیگر عوامی فلاحی منصوبے نواز شریف دور کی واضح مثالیں ہیں حتی کہ 28 مئی 1998 کو امریکی صدر بل کلنٹن کی پانچ فون كالز کو پس پشت ڈال کے اربوں ڈالرز کی پیشکش کو ٹھکرا کے پاکستان کو پہلی اسلامی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت بنانے والا بھی نواز شریف ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواز شریف کی مقبولیت کو عدالتی اور میڈیا ٹرائل کے باوجود کم نہیں کیا جا سکا اس کو پاکستانی عوام کے دلوں سے نہیں نکالا جا سکا بلکہ مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا ہے پاکستانی عوام آج بھی نواز شریف کو اپنا مسیحا سمجھتی ہے۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.