نوجوانوں میں منشیات کی لت
تحریر: ماہ نور شاہ
منشیات کی لت آج کے دور کا ایک خطرناک اور تیزی سے بڑھتا ہوا مسئلہ ہے، خاص طور پر نوجوان نسل کے درمیان۔ نوجوانی ایک ایسا نازک دور ہوتا ہے جب انسان کی شخصیت، سوچ اور مستقبل کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ اگر اس عمر میں کوئی غلط راہ اختیار کر لے تو اس کا اثر پوری زندگی پر پڑتا ہے۔ منشیات کا استعمال اسی غلط راہ کا ایک افسوسناک نتیجہ ہے۔
نوجوان مختلف وجوہات کی بنا پر منشیات کی طرف مائل ہوتے ہیں اکثر نوجوان اپنے دوستوں کی باتوں میں آ کر صرف “آزما کر دیکھنے” یا “کول” نظر آنے کے لیے منشیات کا استعمال شروع کرتے ہیں۔
تعلیم کا دباؤ، گھریلو مسائل، محبت میں ناکامی یا معاشرتی دباؤ نوجوانوں کو اندرونی طور پر کمزور بنا دیتا ہے۔ ایسے میں وہ منشیات کو وقتی سکون کا ذریعہ سمجھ لیتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں منشیات کے نقصانات سے متعلق آگاہی کی کمی بھی اس مسئلے کو بڑھا رہی ہے۔
آج کل منشیات تک رسائی بہت آسان ہو چکی ہے، خاص طور پر تعلیمی اداروں کے آس پاس۔
منشیات صرف جسم کو ہی نہیں بلکہ دماغ، اخلاق، تعلیم، مستقبل، اور رشتوں کو بھی برباد کر دیتی ہے
جسمانی صحت تباہ ہو جاتی ہے: کمزوری، بیماریاں، اور یہاں تک کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
ایسے میں ذہنی مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسے ڈپریشن، بے چینی، غصہ، اور خودکشی کے خیالات۔
تعلیم اور کیریئر ختم ہو جاتا ہے نشے میں ڈوبا ہوا نوجوان پڑھائی سے دور ہو جاتا ہے اور اس کا مستقبل تاریک ہو جاتا ہے۔
خاندان متاثر ہوتا ہے والدین کا دل ٹوٹتا ہے، رشتے کمزور ہو جاتے ہیں، اور سوسائٹی کا بھروسہ ختم ہو جاتا ہے۔
اس سنگین مسئلے پر قابو پانے کے لیے ہمیں کئی سطحوں پر کام کرنا ہوگا
والدین بچوں سے دوستی کریں، ان سے بات چیت رکھیں اور انہیں اعتماد دیں تاکہ وہ اپنا دل کی بات شیئر کر سکیں۔
اسکول اور کالجز میں منشیات کے خلاف پروگرامز اور سیشنز رکھے جائیں تاکہ طلبہ کو حقیقت معلوم ہو۔
جو نوجوان منشیات کا شکار ہو چکے ہیں، انہیں ملامت یا سزا دینے کے بجائے ان کا علاج اور ذہنی مشاورت کی جائے۔
نوجوانوں کو کھیل، مطالعہ، فنون اور دیگر مثبت سرگرمیوں کی طرف مائل کیا جائے۔
حکومت اور اداروں کو چاہیے کہ وہ منشیات فروشوں کے خلاف سخت کارروائی کریں، خاص طور پر تعلیمی اداروں کے آس پاس۔
نوجوان کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔ اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو منشیات جیسی لعنت سے نہ بچا سکے تو ہمارا مستقبل بھی خطرے میں پڑ جائے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم انہیں سمجھائیں، سہارا دیں، اور ایک ایسا معاشرہ بنائیں جہاں وہ محفوظ، باشعور اور کامیاب زندگی گزار سکیں۔