افسانہ۔۔۔۔۔نیلوفر
از:قلم
نورین خان پشاور
کیا ہی مزیدار گرم جاڑا ہے۔ایمان سے دھوپ میں بیٹھنے،مالٹے کھانے اور ریڈیو سننے کا اپنا ہی مزہ ہے،واہ واہ مزہ آگیا۔آج تو میری طبیعت کلی کی مانند چٹک اٹھی۔اور جب مالٹے کے اوپر نمک اور کالی مرچ چھڑک کے کھایا جائے،تو مزہ دوبالا ہو جاتا ہے۔نیلوفر نے دونوں بازوں کو پھیلا کر انگڑائی لی۔آج تو یہ ہوائیں بھی مجھے گرم،گرم محسوس ہو رہی ہیں۔لگتا ہے جیسے جنت کی نرم،نرم گرم ہوائیں ہو،ایسے لگتا ہے کہ جیسے جنت کی ہوائیں جب دھوپ کی تمازت سے بغل گیر ہو جاتی ہیں، تو کسی معشوق کی گالوں میں شرم کی سرخی کی گھل جانے کا گمان ہوتا ہے۔اب اگر اس موسم میں اماں آپ گرم،گرم پکوڑے بھی تل لیں،اور ساتھ چٹنی بھی بنا لیں، تو آج نیلوفر کی عیاشی ہو جائے۔
لاحول ولاقوہ الابالا۔۔۔اے لڑکی یہ کیا اول فول بک رہی ہے۔ اگر دل کرتا ہے،تو جا کر خود پکوڑے بنا لو، بھلا کوئی اپنی ماں کو حکم دیتا ہے پگلی؟
ارے دادی جان! ایک تو آپ بہت پرانی ہے، مذاق بھی نہیں سمجھتی۔
نیلوفر کی ماں یہ سب سن کر ہنس رہی تھی۔اور صحن میں لگی کیاریوں سے دھنیا اور پودینہ توڑ کر چٹنی بنائی،اور کٹوری میں رکھ کر ڈھانپ دی، آخر اسکو نیلوفر کی فرمائش جو پوری کرنی تھی۔اماں نے تندور کی آگ خوب تیز کی،اور اسکے بعد تندور میں بالن لگا کر گرم،گرم روٹیاں لگا دی۔گرم، گرم تازہ روٹی کی سوندھی،سوندھی خوشبو پورے صحن میں پھیل گئی۔
اماں نے پلیٹ میں گرم،گرم قیمہ اور مکھن کا پیڑا رکھ کے اور نرم،نرم تندوری روٹی اور گاڑھی مزیدار لسی پیتل کے گلاس میں ڈالی اور دادی کے آگے کھانا رکھ دیا۔
سکھی رہو میری بہو،تم میری بہو ہی نہیں، بلکہ بیٹی ہو، اس لئے میں نے رشید کہ شادی تم سے کی، کیونکہ تم میری سگھڑ بانجھی جو ٹہری۔ بھلا میری نظر کسی اور پر ٹہرتی۔۔دادی فخر سے بتاتے ہوئے۔
اور اماں ہمیشہ کیطرح مسکرا کر، گھر کے کاموں میں مصروف ہو جاتی۔
نیلوفر آج ہر کام جلدی،جلدی کر رہی تھی۔کبھی اپنے پرانے جوڑے سوٹ کیس سے نکال رہی تھی، اور کبھی ایک جوڑا استری کرتی، تو کبھی دوسرا۔
نیلوفر یہ کیا اودھم مچا کے رکھا ہے؟ آج کوئی خاص بات ہے،جو اتنی تیاریوں میں مگن ہو؟
جی دادی، آپکو یاد نہیں آج شام سات بجے، میری سہیلی سلمی کی سالگرہ ہے، وہاں جانا ہے۔
کیا کہا ؟ شام سات بجے؟
نا جی نا،ہمارے خاندان میں جوان جہاں لڑکیاں مغرب کے بعد گھر سے نہیں نکلتی، یہ بہت ہی برا سمجھا جاتا ہے۔
میں تمھیں اس کی ہر گز اجازت نہیں دونگی، اور اوپر رشید میاں شہر گئے ہیں۔
مگر دادی میرے ساتھ اقرا بھی تو جارہی ہے۔
اماں دیکھئے نا، دادی عین وقت پے روکاوٹ ڈال رہی ہے، حالانکہ آپ جانتی ہے، کہ وہ میری بچپن کی سہیلی ہے۔مہربانی کرکے آپ کچھ کریں۔
اچھا ٹھیک ہے۔ مگر لمبی چادر لو گی، اور منہ چھپا کر پردہ کرکے جاوگی۔
دوسری بات اس چھوٹے رستے جہاں درختوں کے پرانے جھنڈ ہیں،اور قبرستان ہے وہاں سے نہیں جاوگی۔بلکہ لمبا رستہ اختیار کروگی۔خیر ہے اگر دس پندرہ منٹ دیری ہو جائے، کوئی ہرج نہیں۔
مگر دادی اس چھوٹے رستے سے جلد پہنچ جائے گے نہ۔آخر ایسا بھی کیا ہے؟
بس جو میں نے کہہ دیا ویسے کرو، ورنہ میں اپنی اجازت واپس لیتی ہوں۔
اچھا،اچھا ٹھیک ہے دادی جیسے آپکی مرضی۔
نیلوفر جلد اٹھی،اور جانے کی تیاریوں میں مگن ہو گئی۔وہ آج بہت زیادہ خوش تھی، ویسے بھی طبیعت میں اسکی شوخی کوٹ،کوٹ کے بھری ہوئی تھی۔کافی شوخ اور چنچل اور معمولی باتوں پر خوش، اور اچھلنے کھودنے والی لڑکی تھی۔
اسی دوران اقرا بھی آگئی، ہاں بھئی نیلوفر تیار ہو؟ یا نہیں۔۔۔
جلدی کرو دیر ہو رہی ہے۔ٹھیک چھ بجے، اقرا گھر میں آدھمکی۔
میں بس تیار ہوں، تھوڑی لپ اسٹک لگا لوں۔
اور بالوں میں تازہ،تازہ گلاب اور چنبیلی کے پھولوں کی گجرے لگا لئے۔اور اوپر سے تیز گلاب کا عطر پورے کپڑوں پے چھڑکا۔
ارے غضب خدا کا ۔۔۔۔ لڑکی یہ کیا کر رہی ہو؟
مغرب کے وقت خوشبو،عطر وغیرہ،نہیں لگاتے اور خاص کر کنواری لڑکیوں کو منع ہے۔
ایک تو دادی آپ بہت پرانی ہے۔اور آپ کی سوچ بھی کافی دقیانوسی ہے، ایسا کچھ نہیں ساری لڑکیاں، گاوں میں عطر لگاتی ہے شادیوں میں۔
ارے پگلی مگر دن کو لگاتی ہے نہ، نا کہ رات اور اندھیرے میں لگاتی ہے۔
میری بات مانو اور یہ کپڑے تبدیل کر لو۔
نہیں دادی اب میں ایسا نہیں کر سکتی،دیکھو نا لمبی چادر اوڑھ لی ہے۔اور پردہ بھی کر رہی ہوں۔بس ماں جاو نا۔۔۔
اچھا لمبے رستے سے جانا،خدا اپنے امان میں رکھے۔
دادی دعائیں مانگتے،تخت پوش پے بیٹھ گئی۔
اور نیلوفر اور اقرا گھر سے روانہ ہوئے۔
تھوڑا سا فاصلہ طے کرنے کے بعد، جیسے ہی اقرا لمبے راستے کی جانب مڑنے لگی، تو نیلوفر نے کہا،ٹہرو اقرا! میرے ساتھ چھوٹے راستے پر چلو وقت بھی کم لگے گا، اور ہم جلد پہنچ جائے گے۔مگر اقرا نے انکار کر دیا۔ کہ مجھے میری امی نے اس راستے پر جانے سے منع کیا ہے۔ اور میں نہیں جاونگی۔اس پر نیلوفر بولی۔
اچھا ٹھیک ہے اقرا مجھے تو ویسے بھی جلدی ہے اور تم آرام سے دس پندرہ منٹ لیٹ پہنچ جانا، کوئی ہرج نہیں، اب تم اپنے راستے جاو،اور میں اپنے رستے،ہاں یہ خیال رہے،کہ میرے گھر والوں کو پتہ نا چلے۔
اچھا ٹھیک ہے۔ نیلوفر جیسے تمھاری مرضی، تو پھٹ ملتے ہیں سالگرہ میں۔۔۔
نیلوفر بڑے خوداعتمادی اور باوقار انداز سے چلتی گئی۔تھوڑی دور جا کر کچی سڑک کے کنارے، گھنے درختوں کا جھنڈ تھا۔ جس کی شاخیں زمین سے لگ رہی تھی۔چلتے،چلتے نیلوفر تھک گئی،اور مسجد کے قریب پہنچ گئی، جو کہ کافی دور تھا آبادی سے مسجد خالی پڑا تھا، اور پورا صحن نظر آرہا تھا۔
مغرب کی اذان سنائی دی،اور ہلکا،ہلکا اندھیرا چھانے لگا اور نیلوفر تیز،تیز قدم اٹھاتے ہوئے اندھیرے جھاڑ،جھنکار، راستوں پر بڑھتی ہوئی مسلسل چلی جارہی تھی۔
ٹھنڈی،ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی، اور درخت کسی کنواری دوشیزہ، کیطرح رقص کر رہے تھے۔شاخیں زمین سے لگ لگ کے پرسرار،سنسناہٹ بھری آوازیں، پیدا کر رہے تھے۔
نیلوفر کے پیشانی،ٹھنڈے پسینے سے بھیگ گئی تھی۔ حالانکہ موسم سردی کا تھا۔مگر ڈر کی وجہ سے اسے پسینہ آرہا تھا۔وہ مسلسل سوچ رہی تھی، کہ اگر میں اقرا کے ساتھ چلی جاتی، تو اچھا ہوتا۔ خیر اب بہت دیر ہو چکی تھی۔
ایسا لگ رہا تھا، کہ سامنے والا راستہ پورا درختوں کے جھنڈ میں روپوش تھا،اور کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا۔اور جو کچھ نظر بھی آرہا تھا،تو ایسے لگ رہا تھا،جیسے درخت کی خشک،شاخیں ایک دوسرے کے اوپر پڑی ہوئی ہو۔چاروں طرف مکمل خاموشی تھی، اور کوئی آدم زاد نظر نہیں آرہا تھا۔ اور تاریکی مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔کچھ بھی صاف نظر نہیں آرہا تھا، بلکہ دھند کسی ماروائی آسیب کیطرح گردوپیش پر چھا رہی تھی۔
چلتے چلتے نیلوفر رک گئی، اور سہم گئی، اسے ایسے لگا جیسے کسی نے پیچھے سے، اسکی چادر پکڑ لی ہو۔جیسے ہی اس نے موڑ کر دیکھا ۔۔۔
ارے یہ کیا یہ تو میری چادر درخت کی جھاڑی میں پھنس گئی،جیسے ہی وہ جھاڑیوں کی جانب موڑی، اسے ایک تیز ہوا کا جھونکا محسوس ہوا۔
وہ اتنی گرم ہوا تھی، کہ اسکا پورا وجود اندر تک گرم ہو گیا۔ یکدم،نیلوفر کو ایسے لگا جیسے اسے کسی جھلتی ہوئی،دہکتی ہوئی، آگ کی بھٹی،میں کسی ںے کھڑا کیا ہو۔اس کو بہت گرمی محسوس ہوئی۔اس نے چاروں طرف دیکھا مگر کچھ نا تھا۔
درختوں کے جھنڈ سے نکلنے کے بعد، اسے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے راحت ملی۔اس کا دل بہت تیزی سے دھڑک رہا تھا،اور اسے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے اس کا دل ابھی پسلیوں سے باہر نکل آئے گا۔نہایت ہی پراسرار صورت حال تھی۔
تھوڑی دیر چلنے کے بعد اسے محسوس ہوا،کہ جیسے کوئی اسکے ساتھ چل رہا ہو، وہ اسکی موجودگی محسوس کر رہی تھی، مگر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔
بہت ہی خطرناک صورتحال کا سامنا ہوا۔
نیلوفر نے ڈر کے مارے ساری سورتیں اور آیتیں پڑھ لیں، جو اسے یاد تھی۔اس نے اللہ پاک سے مدد مانگی، اور فورا آیت الکرسی پڑھنی شروع کی جیسے ہی تلاوت ختم کی،نیلوفر کو محسوس ہوا کہ اب اسکے ساتھ چلنے والا کوئی نہیں، لگتا ہے جیسے غائب ہی ہو گیا ہو۔
نیلوفر جلدی،جلدی اپنی سہیلی کے گھر پہنچ جاتی ہے،مگر وہاں اقرا کو پہلے پاکر اور بھی حیران ہو جاتی ہے۔
اقرا اسے کہتی ہے، کہ مجھے اسلم بھائی اپنے تانگے میں لے آئے،وہ بھی اسی راستے پر سواری چھوڑ رہے تھے۔
سالگرہ سے واپس آنے کے بعد نیلوفر کا سر بہت بھاری ہو رہا تھا،اسے مسلسل چکر آرہے تھے،اور تیز بخار ہو گیا۔
اماں اور دادی قریب کے حکیم سے دعا،دارو بھی کر رہی تھی، مگر نیلوفر کا بخار کم ہی نہیں ہو رہا تھا۔
رات کو دادی نیلوفر کیساتھ ہی سو گئی۔رات بارہ بجے کے بعد اچانک بجلی خودبخود بند ہو گئی، اور پھر بتی جلنے لگتی،چند منٹ بعد کمرے میں سرسراہٹ اور عجیب سے آوازیں آنے لگیں۔
نیلوفر اس وقت جاگ رہی تھی، اور اسکی ڈر کے مارے چیخیں نکل گئیں،مگر اس کو لگ رہا تھا کہ جیسے وہ چیخ رہی ہے،مگر کوئی اس کی آواز نہیں سن رہا اور حیرانگی کی بات یہ کہ دادی قریب ہی چارپائی پر آرام سے سو رہی تھی۔
نیلوفر تم میری ہو اور میں تمھیں اپنے ساتھ لے جاوں گا،میرا تخت ہمیشہ سمندر کے اوپر ہوتا ہے۔
لگاو نا وہ عطر۔۔۔کہاں ہے وہ عطر، اس نے مجھے تیرا دیوانہ بنا دیا ہے۔لگاو وہ عطر ورنہ تمھارا ایک ہاتھ توڑ دوں گا جلدی کرو۔
نیلوفر کو کسی نے بالوں سے پکڑ لیا۔وہ خود کو چڑانے کی کوششوں میں لگ گئی،مگر اسکی طاقت اس غیبی وجود کے سامنے کچھ بھی نا تھی۔
نیلوفر زمین پر گر گئی،اور پھر جلدی سے دراز سے عطر نکال کے لگا لیا۔عطر کے لگاتے ہی نیلوفر کا وجود جیسے کسی گرم آگ میں مبتلا ہو گیا تھا۔
نیلوفر کا جسم آگ سے جلس رہا تھا،اور اسے لگ رہا تھا جسے کوئی اسکے وجود کو نوچ رہا ہے،کسی درندے کیطرح وہ خود کو چھڑانے کی کوشش میں گرتی ہے،اور اسکا ہاتھ دادی کے منہ پر لگتا ہے۔
یا الہی خیر۔۔
یا الہی خیر۔۔۔
اتنی رات کو یہ گلاب کی اتنی تیز خوشبو اور اوپر سے زمین پر پڑی ہوئی نیلوفر ۔۔۔
دادی فورا آیت الکرسی کا ورد کرتی ہے۔
اور الماری سے قرآن پاک اٹھا کر سینے سے لگا کر نیلوفر کو آوازیں دیتی ہے۔
نیلوفر بےھوشی سے جاگ جاتی ہے،اور اسے لگتا ہے،جیسے کہ اب سکون ہو گیا ہے۔
وہ بےتحاشا رونے لگتی ہے۔
اور پھر سے بےھوش ہو جاتی ہے۔
ساری رات دادی اور اماں اسکے سرہانے بیٹھی رہتی ہیں۔صبح کے وقت نیلوفر کی ماں اقرا کے گھر جاتی ہے،اور اس سے سارا حال احوال معلوم کرتی ہیں۔جس سے سارا معاملہ اس کی سمجھ میں آجاتا ہے۔وہ فورا گاوں کے موذن اور مدرسے کے سرپرست عالم دین مفتی کے پاس جاتی ہے۔
مفتی صاحب فورا اسکے ساتھ گھر آتے ہیں۔
جیسے ہی قدم گھر میں رکھتے ہیں، فورا اعوذباللہ پڑھتے ہیں۔
اور نیلوفر کو دیکھتے ہی اسے کہتے ہے میرے پاس آو۔۔۔
میں نہیں آتا۔۔۔بلکہ تم جیسوں کو میں منزل مقصود تک پہنچاتا ہوں۔
میں نہیں ڈرتا تجھ سے آدم زاد۔۔
میں تیرے باپ کا بھی دشمن تھا،اور تمھارا بھی دشمن ہوں۔تم حقیر لوگ، مٹی سے بنے بدذات لوگ۔۔
تم لوگوں کی کیا اوقات ہے میرے سامنے۔
مفتی صاحب نے تسبیح پڑھنی شروع کی، اور سورہ ناس،سورہ فلک، تین قل جیسے ختم کئے تو نیلوفر چیخنے لگی۔
بند کرو تلاوت بدبخت مفتی۔۔۔بند کرو۔
یہ لڑکی میری ہے، اور یہ میری بیوی بنی گی۔
مفتی صاحب جلال میں بولے ارے بدبخت لعین! یہ لڑکی آدم زاد ہے۔اور انسان ہے، اور انسانوں کا نکاح کسی ابلیس سے نہیں ہوتا۔
دوسری طرف ہونخوار قہقہوں کی آواز ۔۔
تو تم نے مجھے پہچان لیا، کہ میں ابلیس ہوں۔
یہی بات، یہی دانش مندی،یہی رب العزت کا تم انسانوں کو عزت دینا مجھے برا لگتا ہے۔
غضب ناک اور وحشت ناک آوازوں سے کمرہ ہلنے لگتا ہے۔ چیزیں ادھر،ادھر لڑکھنی لگتی ہے۔
مفتی صاحب گرنے لگتے ہیں،کہ وہ تیز آواز میں قرآن پاک کی خاص سورتیں پڑھنے لگتے ہیں۔
اس سے کمرے میں زلزلہ رک جاتا ہے، اور سکون ہو جاتا ہے۔
رک جاو مفتی۔مت پڑھو،مت پڑھو۔۔
میں نہیں ڈرتا تم سے۔
میں نیلوفر کے سر پر پیشاب بھی کروں گا۔
اور اس کی عزت بھی لوٹوں گا۔
میں اس کو پاخانہ کھلاونگا۔
بکواس بند کرو ابلیس لعین۔۔۔
اعوذباللہ ۔۔
اسی کے ساتھ سب سکون ہو جاتا۔
بدبخت لعین نیلوفر آدم آزاد ہے، اور ہم انسان شریعت خداوندی کے پابند ہیں۔تم اس معصوم لڑکی سے دست درازی نہیں کر سکتے۔ورنہ تم پر خدا کا قہر ٹوٹے گا۔چلے جاو یہاں سے۔
نہیں جاوں گا اس لڑکی نے میرے لئے عطر لگایا تھا۔ یہ مجھے خود دعوت دے رہی تھی۔
اب میں اس کی عزت کو تار تار کر دونگا۔
میں اس کو ہر فعل بد سکھاوں گا پھر میں اپنا تخت سمندر پر لگاوں گا،اور وہاں اربوں شیطان میرے پاس آئیں گے، جو آدم کی اولاد کو گمراہ کرنے کی روداد سنائے گے۔اور میں ان کو طاقت دونگا مزید۔۔ہاہاہاہا ہاہاہاہا
کیونکہ تم انسان لوگ خالق کائنات کی بات نہیں سنتے،شریعت خداوندی کے پابندی نہیں کرتے،رب العزت نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر بھیجے،مگر تم انسان لوگ اس عظیم اللہ کی باتوں کو نہیں مانتے۔
یہی میری طاقت ہے۔میں تم سب کو ہندو عیسائیوں اور یہودیوں کیطرح کفر پر قبر میں اتارونگا۔۔۔ہاہاہاہا۔۔
مفتی صاحب۔۔۔۔اعوذباللہ۔۔
یا اللہ مدد،یا رب کائنات مدد،
ہمیں اس لعین ابلیس کی شر سے بچا،بےشک میں تیری عبادت کرتا تھا،کرتا ہوں،اور مرتے دم تک کرونگا۔
یا حق۔۔۔۔۔مفتی صاحب نے سورہ جن بھی پڑھنی شروع کر دی۔
اس کے چند منٹوں بعد نیلوفر بےھوش ہو گئی۔
اور مفتی صاحب بہت پریشانی میں اس کی ماں اور دادی سے پوچھنے لگے۔کہ فریدہ بہن معاملہ اتنا آسان نہیں یہ کوئی جن نہیں،نا عام بھوت،عفریت،یاچڑیل وغیرہ ہے۔
بلکہ یہ ابلیس ہے۔جس کی نظر نیلوفر پر پڑ گئی ہے۔
اب صرف خدا ہی ہماری مدد کر سکتا ہے۔
خیر تم لوگ قرآن مجید کی تلاوت کرو،اور گھر میں ہر وقت اذان دو۔ہر منٹ بعد اذان دو چاہے دل میں ہی کیوں نا دینا پڑے۔
میں اپنے استاد محترم اپنے عالم دین ولی شیخ کے پاس ابھی جاتا ہوں،ایسا نا ہو وہ علماء کرام کیساتھ تبلیغ پر نا چلے جائے۔
اور خیال رہے گھر میں کوئی ناپاکی اور غیر شرعی کام نا ہو کم از کم کل تک۔
کل اللہ خیر کرے گا،اچھا بہن خداحافظ۔
مفتی صاحب جلدی میں چلے گئے۔
شام کے وقت نیلوفر کمرے سے نکلی،اور کہنی لگی اماں مجھے باہر جانا ہے،بس چند منٹوں کے لئے۔
مگر کس لئے میری بچی؟
اماں وہ مجھے دادا جی کی یاد آرہی ہے،قبرستان میں فاتحہ پڑھنے جانا ہے۔
دادی نے حیرت اور شک بھرے انداز سے پوچھا یہ آج تمھیں دادا کی کیسی یاد آگئی۔
وہ دادی ابھی دادا میرے کمرے میں آئے تھے،اور مجھے کہہ رہے تھے کہ تمھاری دادی تو بےوفا ہے، مجھے بھول گئی ہے،مگر تم تو میری اولاد ہو میرے پاس آو۔۔۔
یہ باتیں سن کر دادی کو ایک دم جھٹکا لگا، اور رونے لگی ہائے سرتاج جیتے جی تو میری قدر نہیں کی اب مرتے ہی مجھے رسوا کر رہے ہو؟
نیلوفر کی ماں بولی ارے اماں آپ ھوش کریں نجانے کون ہے،جو ابا جی کی شکل میں آئے ہونگے؟
دادی نے فورا گھر کے دروازے پر تالا لگا دیا،کہ کہی نیلوفر گھر سے بغیر بتائے نا نکل جائے۔اس کو مفتی صاحب کی باتیں یاد آئیں۔
ہاں بہو تم ٹھیک کہتی ہو اور فورا تیز آواز میں اذان دینے لگی۔اذان کے ساتھ ہی نیلوفر جلدی سے اٹھی اور کمرے میں واپس چلی گئی۔
رات کے وقت جب دادی کی آنکھ کھلی تو رات کا اندھیرا گہرا ہو چکا تھا اور آتش دان کی آگ بھی بجھ چکی تھی،اور اس میں راکھ کا ڈھیر لگا ہوا تھا۔دادی بستر سے اٹھی اچانک اس کی نظر کھڑکی پر پڑی دادی کو حیرت کا جھٹکا لگا،کہ صحن میں اس کا شوہر کھڑا ہے،سر پے ٹوپی پہنی ہے،اور سفید لباس پہنا ہے،آو بیگم صاحبہ میں ہوں تمھارا رفیق! تمھارا مجازی خدا۔
دادی حیرت سے کمرے سے باہر نکل آئی، یہ تم ہو رفیق؟ کیا میں خواب دیکھ رہی ہوں؟
نہیں رضیہ بیگم! یہ حقیقت ہے آو میرے پاس آو میں تمھارا شوہر ہوں، مجھے سجدہ کرو۔
دادی جان کے منہ سے نکلا استغفراللہ۔۔
تم رفیق نہیں ہو بلکہ مجھے بہکانے آئے ہو ؟ بتاو کون ہو تم بدبخت؟
رضیہ بیگم مجھے دیکھو میں تمھارا شوہر ہوں۔
ہر گز نہیں۔۔۔
میں اپنے خدا کے سوا کسی کو سجدہ نہیں کر سکتی سمجھے تم؟
میں صرف اللہ کی عبادت کرتی ہوں۔
وہ جو میرا خالق ہے۔جس نے مجھے امت محمد ﷺ میں پیدا کیا۔ میرے لئے دین اسلام پسند کیا۔
تم مجھے سجدے کا کیسے کہہ سکتے ہو؟
تم رفیق نہیں ہو۔۔۔نہیں ہو۔۔۔دفع ہو جاو یہاں سے۔
لاحول ولاقوہ الابالا۔۔۔
جیسے ہی پڑھا اچانک رفیق کے لبادے والا بندہ دھواں بن کے غائب ہو گیا۔
جیسے کسی انجانی طاقت نے اسے بھگا دیا۔
دادی نے ادھر ادھر دیکھا،مگر کوئی نظر نا آیا۔
پھر بولی اچھا میرے سوھنے رب کے باڈی گارڈ یعنی فرشتوں نے بھگا دیا۔
لاحول ولاقوہ الابالا۔۔
صدقے جاو میرے محبوب رب۔۔۔
تیرے جیسا رب جس کو مل جائے اسے اور کیا چائیے۔
کیا ہوا اماں۔۔۔کس سے بات کر رہی تھی؟
کسی سے نہیں نیلوفر کی ماں،جاکے سو جاو۔
وہی تھا بہو،جو بابا آدم کا دشمن تھا، اب ہمیں برباد کرنے آیا تھا۔الہی میری توبہ۔الہی میری توبہ۔
صبح سویرے دادی نے نماز پڑھی،اور تلاوت کلام پاک کی،اس کے بعد گھر میں مسلسل تسبیح اعمال کر رہی تھی اور چکر لگا رہی تھی۔
دروازے پر دستک ہوئی تو مفتی صاحب کیساتھ ایک بزرگ انسان تھے۔ جس کا نورانی چہرہ تھا اور کندھوں پر سبز رمال تھا،اور لمبی گھنی سفید داڑھی تھی،جیسے ہی گھر کے اندر قدم رکھا۔
نیلوفر تیزی سے کمرے سے نکلی اور پاگلوں کیطرح چیخنی لگی چلے جاو یہاں سے۔۔
مفتی کے بچے اب تم اپنے پیرومرشد کو لے آگئے۔
میں نیلوفر کو ساتھ لے کے جاونگا۔
بزرگ ولی جو پاکستان کے مشہور مدرسے کے عالم دین تھے اور لاکھوں علماء کرام اور حافظ قرآن طلباء کے استاد تھے۔
جیسے ہی اس بابا نے نظر اٹھا کے دیکھا تو نیلوفر ایک دم کھڑی ہو گئی۔
فر فر بولنے لگی یہ لو،عالم صاحب اس میں مشہور اور لذیذ مشروب ہے تم پیو اور مست ہو جاو۔
بکواس بند کرو ابلیس لعین تم مجھے ام الخبائث پلانا چاہتے ہو؟
ہم لعنت بھیجتے ہے،حرام شراب پر میرے رب کا فرمان عالیشان ہے،شراب حرام ہے۔رب نے مجھے قرآن میں یہ صاف صاف خبردار کیا ہے۔
میں اپنے رب کا فرمانبردار ہوں۔
بدبخت لعین تم تو خدا کی طاقت اور پاک ذات سے واقف ہو۔کیوں انسانوں سے دشمنی کرتے ہو؟
عالم دین صاحب اس کمرے میں ایک کنواری حسین دوشیزہ ہے جاو نا اس کی دیدار سے آنکھوں کو رونق بخش دو وہ بڑی حسین اور نازک ہے۔
خبردار لعین۔۔۔اگر مجھے ورغلایا بدبخت۔۔۔
تیرے شر سے میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
اعوذ باللہ من الشيطان الرجيم .
اللہ تعالى ہى توفيق بخشنےوالا ہے، اور اللہ تعالى ہمارے نبى محمد صلى اللہ عليہ وسلم اور ان كى آل اور صحابہ كرام پر اپنى رحمتيں نازل فرمائے.
اچانک نیلوفر کو دھکا لگا،اور وہ مفتی صاحب سے دور ہو گئی۔
کیا چاہتے ہو اس لڑکی سے؟
میں اس کو اپنی لونڈی بناونگا۔اسکے سر پر پیشاب کروں گا۔اس کو پاخانہ کھلاونگا۔اس سے بدکاری کروں گا۔اس سے شیطان پیدا کروانگا۔
اس کو اپنے تخت پر بیٹھایا کرونگا جو میں سمندر کے اوپر تخت سجاتا ہوں۔
چھوڑ دے اس کا پیچھا بدبخت یہ آدم آزاد ہے۔ انسان ہے، اور تو شیطان ہے۔تو راندہ درگاہ ہے۔ ٹھکرایا ہوا ہے۔تو میرے رب کا دشمن ہے۔میرے بابا آدم کا دشمن ہے۔دفع ہو جا یہاں سے۔
میں نہیں جاوں گا۔۔۔نہیں جاوں گا اس لڑکی نے گھر سے نکلتے وقت عطر کی خوشبو لگائی۔
اس نے مجھے دعوت دی ہے خود۔
تم انسان لوگ احادیث پڑھتے ہو مگر عمل نہیں کرتے۔میرا کام آج بن گیا ہے مفتی کے بچے اپنے مرشد کے ساتھ دفع تو ہو جا۔
ورنہ تم سب کو مار دونگا۔
ہماری جان اس خالق کائنات کے قبضے میں ہے بدبخت لعین۔تم ہمیں کیا ماروگے؟
ہم صرف اللہ کی عبادت کرتے ہیں اسی سے مدد مانگتے ہیں۔اب آخری بار کہتا ہوں چلا جا ورنہ جلا کر بھسم کر دونگا۔
نہیں جاوں گا۔۔نہیں جاوں گا۔
مفتی صاحب تم تیار ہو۔۔۔یہ ابلیس لعین ہے۔۔۔
لے آو آب زم زم۔۔۔
میں حصار باندھتا ہوں،تم نے اس سے باہر نہیں نکلنا۔اور عالم دین بزرگ بابا نے تلاوت قرآن پاک شروع کر دی۔نیلوفر کی چیخی آسمان تک بلند ہو گئی۔۔
مت پڑھو۔۔۔مولوی
مت پڑھو مولوی
میں جل رہا ہوں
میں تڑپ رہا ہوں۔
اور دس منٹ کے بعد نیلوفر کا جسم ڈھیلا ہو کر گر پڑا اور بےھوش ہو گئی۔
مفتی صاحب حصار سے نکل آئیں ۔
اللہ پاک کے فضل و کرم سے ابلیس شیطان جن جل کر بھسم ہو چکا ہے۔
اب نیلوفر آزاد ہے۔
دادی اور نیلوفر کی ماں نے مفتی صاحب اور عالم دین بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔
مفتی صاحب نے کہا کہ آئندہ نیلوفر کبھی بغیر پردے کے اور ننگے سر گھر سے باہر نا جائے۔
اور پورا گھر نماز،تلاوت اور اعمال روز کریں۔
شیطان کو خدانے صرف بہکانے اور ورغلانے کی آزادی دی ہے۔ اس کو یہ طاقت نہیں دی کہ وہ کسی کو بزور گمراہی کے راستے پر ڈال دے۔ جو لوگ خدا سے اپنا ذہنی رابطہ قائم کيے ہوئے ہوں ان پر اس کا کچھ بس نہیں چلتا۔ البتہ جو لوگ خدا سے غافل ہوں اور شیطان کی باتوں پر دھیان دیں ان کے اورپر شیطان مسلط ہوجاتا ہے اور پھر جدھر چاہتا ہے ادھر انھیں لے جاتا ہے.مفتی صاحب نے دادی کو تلقین کی کہ ہر رات سورہ بقرہ کی آخری دو آیات ضرور پڑھا کریں۔
جو شخص رات میں سورت بقرہ کی آخری دو آیتیں پڑھتا ہے تو اس کے لئے وہ کافی ہیں۔ ‘‘۔ بخاری (2/ 749)، مشکوٰۃ (1/ 180)
اس دن کے بعد نیلوفر ہر ایک کو بتاتی کہ بزرگ جو باتیں بتاتے ہیں ان میں گہرائی ہوتی ہیں بس ہم نوجوان سمجھتے نہیں۔
اور اللہ پاک نے ہمارے لئے پیغمبر اکرم ﷺ بھیجے قرآن مجید اتارا کہ شیطان تمھارا کھلا دشمن ہے۔
خبردار رہو۔
شراب مت پیو۔
سود پر کاروبار مت کرو۔
زنا اور بدکاری مت کرو۔
ملاوٹ مت کرو۔
ہم جنس پرستی سے دور رہو۔
صرف اللہ کی عبادت کرو اس کریم ذات کا شکر ادا کرو۔اور سب دعا مانگو کہ ہم سب کا خاتمہ ایمان پر ہو۔دنیا ایک دھوکا ہے سراب ہے۔
اللہ سے رشتہ مضبوط کیجئے، تاکہ مفت کے باڈی گارڈ فرشتے،ہمارے ساتھ ہر وقت رہیں۔
ختم شد۔