بلوچستان کا نوحہ: محرومیوں کی داستان کب ختم ہوگی؟
بلوچستان، جو قدرتی وسائل سے مالامال ہے، مگر اس کے باسی آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ صحت، تعلیم، روزگار اور سیکیورٹی جیسے بنیادی مسائل نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے، لیکن ان کا حل تلاش کرنے کے بجائے ان پر سیاست کی جاتی رہی ہے۔
صحت کا بحران: اسپتال یا موت کے گھر؟
بلوچستان میں صحت کے مراکز کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ سرکاری اسپتال تو موجود ہیں، مگر وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ نہ معیاری دوائیں میسر ہیں، نہ ہی جدید مشینری، اور سب سے بڑا مسئلہ ماہر ڈاکٹروں کی عدم دستیابی ہے۔ نتیجتاً مریضوں کو یا تو دوسرے شہروں کا رخ کرنا پڑتا ہے یا پھر وہ سسک سسک کر جان دے دیتے ہیں۔
تعلیم: اسکول تو ہیں، مگر استاد اور سہولیات کہاں؟
بلوچستان میں تعلیمی ادارے تو موجود ہیں، مگر ان میں سہولیات ناپید ہیں۔ دور دراز علاقوں میں اسکول تو بنائے گئے ہیں، مگر وہاں نہ اساتذہ ہیں، نہ کتابیں، اور نہ ہی بنیادی ڈھانچہ۔ کالجز اور یونیورسٹیز میں معیاری تعلیم کی کمی اور وسائل کی قلت کے باعث نوجوان یا تو تعلیم ادھوری چھوڑ دیتے ہیں یا پھر بہتر مستقبل کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
روزگار: وسائل کے مالک مگر بےروزگار!
بلوچستان میں بےروزگاری ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہاں قدرت نے بیش بہا معدنی وسائل عطا کیے ہیں، مگر ان کا فائدہ مقامی آبادی کو کم اور باہر سے آنے والوں کو زیادہ دیا جاتا ہے۔ سرکاری نوکریوں میں شفافیت کا فقدان اور نجی شعبے میں مواقع کی عدم دستیابی نے نوجوانوں کو یا تو مایوسی میں دھکیل دیا ہے یا پھر وہ ہجرت پر مجبور ہیں۔
حکومتی غفلت اور ناانصافی کی سیاست
بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ حکومتی بےحسی اور ناانصافی پر مبنی پالیسیز ہیں۔ ترقیاتی منصوبے یا تو کاغذوں تک محدود رہتے ہیں یا پھر فنڈز کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔ جب عوام احتجاج کرتے ہیں تو ان کی آواز دبانے کے لیے سخت اقدامات کیے جاتے ہیں۔
کیا بلوچستان کے مسائل کبھی حل ہوں گے؟
یہ وہ سوال ہے جو ہر بلوچستان کے ہرباسی کے ذہن میں گردش کرتا ہے۔ بلوچستان کو اس کے حقوق کب ملیں گے؟ عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور سیکیورٹی جیسی بنیادی سہولیات کب میسر ہوں گی؟ کیا حکومتیں صرف دعوے کرتی رہیں گی، یا عملی اقدامات بھی اٹھائیں گی؟
بلوچستان کے مسائل کا حل صرف اعلانات اور دعووں میں نہیں، بلکہ سنجیدہ حکمتِ عملی، شفافیت، اور مقامی آبادی کو بااختیار بنانے میں ہے۔ جب تک حکومت اور ریاستی ادارے اس حقیقت کو تسلیم نہیں کریں گے، بلوچستان کا نوحہ جاری رہے گا۔