بلوچستان کا طالب علم سراپا احتجاج کیوں؟؟
دور حاضر میں اگر ایک طرف دیکھا جائے تو اقوام عالم میں ترقی یافتہ اقوام جنہوں نے تعلیم کے ذریعے دنیا میں بلند مقام پایا ہے ۔ٹیکنالوجی کے ذریعے تسخیر دنیا کے مقاصد کو اپنا نصب العین بنا رکھا ہے ۔ تعلیمی انقلاب کے ذریعے دنیا پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہے ہیں بلکہ ایک حد تک پورا بھی کرچکے ہیں اور آگے بھی اس حوالے سے دائرہ کار کو اسی اساس پر بڑھایا جارہاہے اور دوسری طرف ہم پاکستانی قوم بالعموم اور صوبہ بلوچستان بالخصوص تعلیم جیسے اہم اور اساسی میدان میں روزانہ کی بنیاد پر تنزلی کا شکار ہو رہے ہیں تعلیمی سہولیات کی فراہمی کے بجائے طالب علم شدید پریشان اور مایوسی کے گھپ اندھیرے میں دھکیلا جارہا ہے اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کا طالب علم ٹیلنٹ کی بنیاد پر کسی بھی صوبے کے طالب علم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے لیکن شو مئی قسمت کہ غریب طالب علم سے تعلیم کا بنیادی حق تک چھینا جارہا ہے ۔تعلیمی ادارے دینا تو دور کی بات موجودہ تعلیمی اداروں کی صورتحال ابتر اور انتہائی مخدوش ہے اس ضمن میں اگر دیکھا جائے تو بلوچستان کا طالب علم سراپا احتجاج ہے گزشتہ سال پاکستان میڈیکل کمیشن کے ذریعے ہونے والے میڈیکل انٹری ٹیسٹ میں بے تحاشا بے ضابطگیوں پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں میڈیکل کے طلباء نے شدید احتجاج کیا جس پر پولیس کے تشدد سے کئی طلباء شدید زخمی اور چند طلباء کو پابند سلاسل بھی کیا گیا میڈیکل طلبہ کے اس شدید احتجاج کے باوجود کوئی شنوائی نہ ہوسکی اور اسی ناقص ٹیسٹ میڈیکل جیسے اہم شعبے کے لیے برقرار رکھا
اسی طرح بلوچستان کے تین اضلاع میں موجود میڈیکل کالجز لورالائی میڈیکل کالج، جھالاوان میڈیکل کالج خضدار ، اور مکران میڈیکل کالج جو تاحال پی ایم سی میں رجسٹرڈ نہیں تھے لیکن تدریسی عمل جاری تھا جس کی رجسٹریشن کے لیے پاکستان میڈیکل کمیشن نے مذکورہ بالا کالجز کے طلباء سے خصوصی امتحان لینے کا فیصلہ کیا جو کہ بلوچستان کے طلبہ کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے اسی فیصلے کے خلاف مذکورہ میڈیکل کالجز کے طلباء گزشتہ ایک مہینے سے کوئٹہ کے شدید سرد موسم میں پریس کلب کے سامنے احتجاجی کیمپ میں بیٹھے ہوئے ہیں
اسی طرح گزشتہ دنوں صوبے کی واحد ویمن یونیورسٹی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کے طالبات ہاسٹلز میں ناکافی سہولیات کے سڑکوں پر احتجاج کرتی نظر آئیں سلسلہ صرف یہی تک نہیں بلکہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی طرف سے بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے میڈیکل طلبہ کے لیے 265 میڈیکل سیٹس اور سکالرشپس مخصوص کیے گیے تھے جس سے بلوچستان کے غریب طلبہ کو ملک کے بہترین میڈیکل کالجز میں سکالرشپ کے ساتھ پڑھنے کا موقع میسر آتا پچھلے سال پی ایم سی نے مذکورہ سکالرشپس اور سیٹس دینے سے صاف انکار کیا جوکہ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے سینیٹرز کی کوششوں گزشتہ سال کے لیے بحال کیا گیا اور سینٹ آف پاکستان نے باقاعدہ ایک قرارداد بھی پاس کیا لیکن اس سال پھر ہٹ دھرمی کا سلسلہ جاری ہے جس کی بحالی کے لیے اسلام آباد میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مرکزی آفس کے سامنے بلوچستان اور سابقہ فاٹا کے طلبہ گزشتہ 35 دنوں سے سرد موسم مین دھرنا دیے بیٹھے ہیں ۔ مجموعی صورتحال میں جہاں صوبے کے طالبعلم بڑی تعداد میں کیمپسز میں ہونے کے بجائے سراپا احتجاج ہیں تعلیمی ایمرجنسی کے دعویدار تبدیلی سرکار کے لیے سوالیہ نشان ہے اور ترقی یافتہ ممالک کی بہ نسبت ہماری ترقی کا مسخ شدہ عکس ہے وسائل سے مالامال صوبے کے طالبعلموں کا بڑی تعداد سراپا احتجاج ہونا ہمارے لیے معاشرے کے لیے اور برسراقتدار طبقے کے لیے سوچنے کا مقام ہے