گل بنگلزئی ، براہوی ادب ایک باب تمام ہوا

0 255

اچھا ادب معاشرے کی جذباتی ، فکری اور عملی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ اور یہ صرف ترجمان ہی نہیں ہوتا اِس پر تنقید بھی کرتا ہے۔معاشرہ مختلف خانوں میں بٹے ہونے کے باوجود اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِسی اکائی کو جسے ہم اگر ادبی اکائی تسلیم کر لیں تو ہمارا سماجی برتاو± میں نہ صرف سلجھاو± آجائے بلکہ سماجیات کا وہ ح±سن ہماری زندگیوں میں در آئے۔ جس کی تمنّا ہر ذی شعور انسانی ذہن و قلب کرتا ہے ۔ادب اور ادیب معاشرتی ، سماجی ، تمدنی اور ثقافتی رعنائیوں کو دوام بخشنے کیلیے مدام ہمہ تن و ہمہ وقت مصروفِِ عہتے ہیں انہی ادبی زخصیات میں گل بنگلزئی کی ادبی خدمات کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ، گل بنگلزئی نے بلوچستان میں جو ادب کی۔ترقی و ترویج کیلیے انجام دی ہیں ، وہ قابل ستائش ہیں۔ گل بنگلزئی اگست 1936ئ کو۔کوئٹہ۔کے نواحی علاقے کلی نوحصار میں پیدا ہوئے ، ابتدائی تعلیم نو حصار سے حاصل کرنے کے بعد گورنمنٹ اسپیشل ہائی اسکول کوئٹہ میں داخلہ لیا اور وہی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ، ملتان۔ ورڈ سے انٹرمیڈیٹ اور لاہور یونیورسٹی سے بی ، اے کی ڈگری حاصل کی۔اور عملی زندگی کا آغاز کیا ، آپ نے۔بلوچستان ثانوی تعلیمی بورڈ کوئٹہ ، بلوچستان یونیورسٹی ، انجیئرنگ یونیورسٹی خضدار اور تربت میں اعلیٰ عہدوں پر کام کیا اور شہرت کمائی۔ گل بنگلزئی نے علم و ادب کے جھنڈے بھی لہرائے اور عروج حاصل کیا ، گل صاحب نے 1977ئ میں ” قائدِ اعظم نا تراناک ” افسانوں کا۔مجموعہ “ڈراداگاگواچی” 1989ئ میں منظرِ عام پر آیا ، پھر براہوی ناول “دریہو” لکھا ، گل بنگلزئی نے ٹالسٹائی کے افسانوں کا ترجمہ 1981ءمیں ” زندنا چراغ” کے نام سے۔کیا۔جسے۔بے حد پزیرائی ملی ، 1993ئ میں “روش پیش” مارکیٹ میں آیا ، گل بنگلزئی نے اردو میں بھی ایک کتاب ” انسان کا نصیب” لکھکر اپنی ادبی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔مقررین نے براہوی لسان و ادب پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں براہوئی بولنے ، سمجھنے اور پڑھنے والوں کی تعداد کم و بیش 2.7 ملین ہے جو سندھ‘ بلوچستان اور افغانستان میں بھی پائے جاتے ہیں اور انکے مشہور قبائل میں مہمند‘ حسینی‘ چنگل‘ بنگلزئی‘ جوگیزئی‘ میروانی‘ مہمند شاہی نمایاں ہیں۔ قدیم سندھ بلوچستان اور ہڑپہ کی آبادی داروڑتی ‘ قدیم سندھی نسلیں اور براہوی داروڑو ہیں جبکہ بلوچ ایرانی نسل ہیں اور چنگیز خان کے ایران پر حملوں کے بعد بلوچستان میں وارد ہوئے لہٰذا بلوچستان کی سرزمین کے اصل وارث اور قدیم حاکم براہوی ہیں اور انگریزوں کی آمد سے پہلے 17 صدی سے تین سو سال تک قلات میں براہوی کے حکمران رہے ہیں۔ براہوی قوم جس نے 550 سال تک بلوچستان پر حکومت قائم رکھی‘ اِس طرح ہم کہ سکتے ہیں کہ بلوچستان میں براہوی ادب اور یہاں کا ادیب ایک تاریخ رکھتے ہیں اور یہی تاریخ بلوچستان کا قیمتی اثاثہ تھے جو اب دنیا میں نہیں رہے۔ ا±ن کی وفات سے براہوی ادب کا ایک باب ختم ہو گیا گل بنگلزئی براہوئی زبان میں متعدد ناول ,افسانہ اور عالمی ادب کے شہہ پاروں کے براہوئی ترجمہ کے کتابوں کے مصنف تھےبراہوئی زبان ادب و ثقافت کی ترقی و ترویج میں گل بنگلزئی گرانقدر خدمات رہے ہیں ,آپ براہوئی زبان کی اولین ناول نگار بھی تھے ,براہوئی زبان کی پہلا تخلیقی ناول “دریہو”انکا پہلا ناول ہے۔گل بنگلزئی کو اپنی براہوئی زبان سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ براہوئی زبان وادب کی ترقی و ترویج میں اہم کردار ادا کیا۔گل بنگلزئی ایک مہربان و انسان دوست ادیب تھے,تخلیقات میں محنت کش,مظلوم و محکوم طبقات کے مساہل اور سماج میں ہر قسم کی نفرت ,جہالت,بد عنوانی ,اور نا انصافیوں کے خلاف جدوجہد اپکے اہم موضوعات تھے۔آپ براہوئی زبان میں متعدد ناول ,افسانہ اور عالمی ادب کے شہہ پاروں کے براہوئی ترجمہ کے کتابوں کے مصنف تھےگل بنگلزئی کی ناول “روش پیش “جو 1993 میں شاہع ہوئی اسے براہوئی ادب اور بلوچستان میں خاصی پزیرائی ملی اس ناول کی بلوچی ,اردو اور انگریزی میں ترجمہ کیا گیا ہے۔آپ براہوئی زبان
ادب تاریخ و ثقافت کا ایک روشن باب تھے۔واضح رہے کہ گل بنگلزئی اپنی زندگی کے اخری ایام تک براہوئی زبان و ادب کی ترقی کے لیے ہمہ وقت متحرک رہے۔گل بنگلزئی کی دنیا فانی سے رخصت نہ صرف براہوئی زبان و براہوئی ادبی حلقوں بلکہ بلوچستان کے لیے ایک بہت بڑا نقصان ہے۔براہوئی زبان وادب کے لیے انکی علمی ادبی ناقابل فراموش خدمات کو ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔دعا ہے کہ اللہ پاک مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے آمین۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.