سرکاری ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی وجوہات اور اثرات
ترقی یافتہ ممالک میں صحت کے شعبے کو اولین ترجیح دی جاتی ہے، جہاں عوام کو بہتر علاج معالجہ، جدید طبی سہولیات اور تربیت یافتہ عملہ میسر ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی غریب عوام کو صحت کی بنیادی سہولیات فراہم کرنے کے لیے حکومت کی جانب سے سرکاری ہسپتال قائم کیے جاتے ہیں۔ ان ہسپتالوں کا بنیادی مقصد غریب اور نادار افراد کو مفت علاج معالجہ کی سہولت فراہم کرنا اور دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے۔ اسی مقصد کے تحت ہر سال بجٹ میں ان ہسپتالوں کی تعمیر و ترقی اور عوام کو معیاری طبی سہولیات مہیا کرنے کے لیے خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ لیکن بدقسمتی سے، جب غریب مریض علاج کے لیے سرکاری ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں، تو انہیں بنیادی طبی سہولیات، معیاری علاج، اور مناسب ڈاکٹروں کی عدم دستیابی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹروں کہ بجائے موقع پر موجود بعض جونیئر اسٹاف کا غیر اخلاقی رویہ، جو نہ صرف مریضوں کی خدمت میں کوتاہی برتتا ہے بلکہ ان کی عزتِ نفس کو بھی مجروح کرتا ہے، جس کے نتیجے میں بے بس مریض مایوس ہو کر واپس لوٹنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ہر سال اربوں روپے کے بجٹ کے باوجود سرکاری ہسپتال زبوں حالی کا شکار کیوں ہیں؟ ان ہسپتالوں میں صفائی ستھرائی کے ناقص انتظامات، علاج معالجے اور ادویات کی عدم دستیابی، ڈاکٹروں اور دیگر عملے کی غیر حاضری، اور کرپشن جیسے سنگین مسائل کا ذمہ دار کون ہے؟ یہی وہ عوامل ہیں جنہوں نے سرکاری ہسپتالوں کو بدنام کر دیا ہے۔ شکایات کے انبار لگنے کے باوجود عوام کی داد رسی کرنے والا کوئی کیوں نظر نہیں آتا؟ ایسے سوالات ہیں جو جواب طلب ہیں، مگر حکومت اور ارباب اختیار کاغذی کارروائی اور زبان کی صفائی سے ان ہسپتالوں کی کارکردگی کو ایسے پیش کرتے ہیں جیسے اس حوالے سے کسی کو کوئی شکایت ہی نہ ہو۔ سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے فقدان کی وجہ سے پرائیویٹ ہسپتالوں کی بھرمار ہو گئی ہے، جہاں علاج کے اخراجات عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہو چکے ہیں۔ مزید برآں، بعض ڈاکٹروں کی لیبارٹریوں اور دوا ساز کمپنیوں سے ملی بھگت کے باعث غریب مریضوں پر غیر ضروری ٹیسٹ اور مہنگی ادویات کا بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ رجحان اب معمول بنتا جا رہا ہے، اور بدقسمتی سے، بعض ڈاکٹر جو مسیحا اور ہمدرد ہونے چاہیے تھے، وہ محض دولت کمانے کی دوڑ میں لگ چکے ہیں۔ ان کے نزدیک مریض کی غربت کوئی معنی نہیں رکھتی، بلکہ ان کی اولین ترجیح اپنی فیس اور کمیشن ہوتا ہے۔ صورتحال اس حد تک بگڑ چکی ہے کہ نہ تو کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس کا نظام موجود ہے اور نہ ہی شکایات کے ازالے کا کوئی مضبوط طریقہ کار۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سرکاری ہسپتالوں میں بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے، تاکہ غریب عوام کو عطائی ڈاکٹروں اور بعض منافع خور پرائیویٹ ہسپتالوں کے استحصال سے بچایا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے ہسپتالوں میں بجٹ کے درست استعمال کو یقینی بنانے کے لیے مؤثر نگرانی کا نظام متعارف کرایا جائے۔ عملے کی حاضری یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹروں اور دیگر طبی عملے کی حاضری اور کارکردگی کی سخت مانیٹرنگ کی جائے۔ ساتھ ہی، ادویات اور سہولیات کی فراہمی کو بہتر بنایا جائے، تاکہ مریضوں کے لیے معیاری اور سستی ادویات کی دستیابی ممکن ہو۔ نیز، صفائی اور بنیادی ڈھانچے کی بہتری پر توجہ دی جائے، تاکہ ہسپتالوں میں علاج معالجہ کے ساتھ صفائی کے انتظامات عالمی معیار کے مطابق ہوں۔ اسی کے ساتھ، عوامی شکایات کا ازالہ کرنے کے لیے ایک مؤثر اور فعال نظام متعارف کرایا جائے، جہاں مریض اپنے مسائل باآسانی بیان کر سکیں۔ اگر حکومت سنجیدگی سے اصلاحاتی اقدامات کرے، تو نہ صرف سرکاری ہسپتالوں کا نظام بہتر ہو سکتا ہے بلکہ عوام کو سستی اور معیاری طبی سہولیات بھی فراہم کی جا سکتی ہیں۔ اس کے بغیر صحت کے شعبے میں بہتری کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔