مولانا مفتی محمود اوران کی علمی وفکری وارثت
تاریخ کے اوراق میں بعض ہستیاں ایسی تحریر ہوتی ہیں جن کے وجود سے ملتوں کی تقدیریں سنورتی ہیں،ان کے کردار علم و ایمان، بصیرت و شجاعت، اور دیانت و سیاست کا امتزاج ہوتے ہیں،انہی نابغہ روزگار شخصیات میں مفکرِ اسلام، فاتحِ قادیانیت، اور رمز شناسِ سیاست حضرت مولانا مفتی محمود رحم اللہ علیہ کا نام ایک درخشاں مینار کی طرح تابندہ ہے،مفتی محمود کی شخصیت علم و حلم، زہد و تقویٰ، اور فقاہت و قیادت کا حسین سنگم تھی۔ آپ کے فتاویٰ میں علمی گہرائی، بصیرتِ شرعی اور فقہی دقت نمایاں تھی، مدارسِ دینیہ میں آپ کا فیضانِ علم آج بھی جاری ہے۔ آپ نے ہمیشہ علم کو عمل کا تابع، اور سیاست کو خدمت کا وسیلہ سمجھا،آپ کے عہدِ وزارتِ اعلیٰ (صوبہ سرحد، موجودہ خیبرپختونخوا) کا دور اسلامی تاریخِ پاکستان کا روشن باب ہے، آپ نے پہلی مرتبہ حکومت کے ایوانوں میں شریعتِ مطہرہ کی خوشبو رچا دی،شراب کے اجرائ پر مکمل پابندی عائد کی ، حتی کے اسوقت کے وزیر اعظم کو شراب نہیں دی گئی ، یہ وہ کام تھا جسے کسی اور حکومت نے ہاتھ تک نہ لگایا تھا،دفتری سطح پر شلوار قمیص اور شرعی لباس کا استعمال لازم قرار دیا تاکہ اسلامی ثقافت ریاستی نظام میں رائج ہو، عائلی قوانین میں اصلاحات کیں، اسلامی اخلاقیات کو قانون کا حصہ بنایا، اور معاشرتی بے راہ روی کے خلاف علمِ جہاد بلند کیا،جب مرکز کی حکومت نے آپ پر دباو ڈالا کہ شراب کی پابندی اٹھائی جائے اور بعض سیکولر قوانین نافذ کیے جائیں، تو آپ نے عزت و ایمان کو اقتدار پر ترجیح دی، آپ نے وزارتِ اعلیٰ کا منصب چھوڑ دیا مگر اصولوں سے ایک انچ پیچھے نہ ہٹے،یہ استعفیٰ محض ایک سیاسی فیصلہ نہیں، بلکہ ایمان و کردار کی فتح تھی،1970ئ کے عام انتخابات میں آپ نے مغربی پاکستان کے معروف سیاست دان عبدالولی خان جیسے قد آور رہنما کو شکست دی ،یہ صرف سیاسی جیت نہیں بلکہ نظریاتی فتح تھی، آپ نے ثابت کیا کہ قومیں دولت یا قومیت سے نہیں، ایمان اور کردار سے فتح حاصل کرتی ہیں،تحریکِ ختمِ نبوت میں آپ کا کردار تاریخِ پاکستان کا زرّیں باب ہے، قادیانیت کے فتنہ عظیم کے خلاف جب امت کا ایمان خطرے میں پڑا، تو آپ نے علم، حکمت اور استقامت کے ساتھ قیادت فرمائی۔ آپ کے عزمِ ایمانی کے نتیجے میں پارلیمنٹ نے ختمِ نبوت کے عقیدہ کو آئینی حیثیت دی ،وہ فیصلہ جس نے امت کے عقیدے کو قانونی تحفظ عطا کیا،اسی روشن مشن کے وارث، آپ کے فاضل فرزند حضرت مولانا فضل الرحمٰن دامت برکاتہم ہیں جو اپنے والد کے فکری، سیاسی اور روحانی نقشِ قدم پر گامزن ہیں، انہوں نے نہ صرف اس مشن کو آگے بڑھایا بلکہ کئی میدانوں میں اسے نئی بلندیوں تک پہنچایا،ستر برس کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار یہ ایمان افروز منظر دنیا نے دیکھا کہ ایک دینی رہنما عدالت میں بنفسِ نفیس حاضر ہوا اور ختمِ نبوت کے مقدس عقیدہ کے دفاع میں شرعی و آئینی دلائل کے ساتھ مقدمہ لڑا، یہ محض قانونی کاروائی نہیں بلکہ عشقِ مصطفی کا عملی اظہار تھا وہ اعلان کہ ناموسِ رسالت پر کوئی سودے بازی نہیں،مولانا فضل الرحمٰن نے۔عمران خان کے سیاہ ترین دور حکومت میں گستاخ رسول آسیہ مسیح کے رہائی کے خلاف تحفظِ ناموسِ رسالت اور ختمِ نبوت کے دفاع کے لیے ملک کے طول و عرض میں پندرہ ملین مارچز کیے،آسیہ کی رہائی کے خلاف جب ایمان مجروح ہوا، انہوں نے عشقِ مصطفی کے جذبے سے لبریز احتجاجات کے ذریعے امت کے دلوں میں غیرتِ ایمانی کی حرارت پیدا کی،جب ایک قادیانی شخص عاطف میاں کو اقتصادی مشاورتی کونسل کا رکن بنایا گیا، تو مولانا فضل الرحمٰن نے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر حکومت کے اس فیصلے کو ناکام بنایا،انہوں نے واضح کیا کہ قادیانیت اسلام نہیں بلکہ ارتداد ہے، اور ریاستِ مدینہ کے دعوے دار اگر قادیانیت نوازی کریں گے تو قوم خاموش نہیں رہے گی،انہوں نے 295-C (قانونِ ناموسِ رسالت ) میں ترمیم کی ہر کوشش کے خلاف فولاد بن کر کھڑے ہوئے،اسرائیل کو تسلیم کرنے کی افواہوں اور عمران خان کی حکومت کے بعض افراد، خصوصاً عاصمہ حدید کی اسرائیل نوازی کے بیانات کے خلاف انہوں نے دوٹوک موقف اختیار کیا۔ ان کی قیادت میں قوم نے واضح کر دیا کہ “پاکستان اور اسرائیل” دو متضاد نظریے ہیں ایک توحید کا عَلَم بردار، دوسرا ظلم و باطل کا علمبردار،عمران خان کے دورِ حکومت میں جب کرتاپور راہداری اور اسرائیلی طیارے کے پاکستان آنے کے معاملات منظرِ عام پر آئے، مولانا فضل الرحمٰن نے جرات و استقامت کے ساتھ ان سازشوں کو بے نقاب کیا اور واضح کیا کہ “اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے دروازے کسی غاصب ریاست کے لیے نہیں کھل سکتے،مدارسِ دینیہ کے تحفظ اور رجسٹریشن کے مسئلے پر بھی ان کی بصیرت و قیادت نے امت کو ایک متفقہ راستہ دیا،انہوں نے یہ باور کرایا کہ مدارس صرف تعلیم کے مراکز نہیں بلکہ ایمان و تہذیب کے قلعے ہیں، ان پر دست درازی دراصل امت کے قلب پر حملہ ہے،یوں حضرت مفتی محمود کی فکر اور ان کے فرزندِ ارجمند کی جدوجہد امت کے
لیے وہ تسلسلِ ایمان ہے جو کبھی منقطع نہیں ہوتا،ایک نے اقتدار کی قربانی دے کر اصول بچائے، دوسرے نے پوری دنیا کے سامنے باطل کو للکار کر ایمان کی حرمت قائم رکھی،آج جب حضرت مفتی محمود کا یومِ وفات ہے، تو یہ دن محض یادگارِ ماضی نہیں بلکہ تجدیدِ عہد کا لمحہ ہےکہ ہم ان کی علمی و سیاسی وراثت کے امین بنیں، ان کے عزم و اخلاص کو مشعلِ راہ بنائیں، اور دینِ محمدی کے غلبے کے لیے متحد و بیدار رہیں،ان کی فکر کا تسلسل، ان کے فرزند کی قیادت میں آج بھی امت کے قافلے کو روشنی عطا کر رہا ہے یہ تسلسل ہی دراصل “تحفظِ ختمِ نبوت” اور “ناموسِ رسالت ” کے عہدِ جدید کا عنوان ہے۔