والد صاحب کی آمد دستاربندی کی رونق

0 34

تحریر۔ثناءاللہ حبیب بن مولانا حبیب اللہ

زندگی میں کچھ لمحے ایسے ہوتے ہیں جو انسان کے دل پر ہمیشہ کے لیے نقش ہو جاتے ہیں۔ یہ لمحے کسی تصویر کی طرح ذہن میں محفوظ رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے بعد بھی ان کی خوشبو باقی رہتی ہے۔ میرے لیے 16 جنوری 2025 کا دن ایسا ہی تھا، جب میرے والد محترم 51 برس بعد کراچی آئے۔ یہ ان کا اس شہر کا دوسرا سفر تھا، مگر میرے لیے یہ دن ایک خواب کی تعبیر اور برسوں کی دعاو¿ں کا قبول ہونا تھا۔بچپن سے ایک خواہش دل میں پل رہی تھی کہ والد صاحب میری کسی دینی تقریب میں شریک ہوں۔ ایک بار میں نے شکوہ بھی کیا کہ آپ کبھی مدرسے یا اسکول نہیں آتے۔ والد صاحب نے محبت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا: “بیٹا، مجھے تم پر اعتماد ہے، تمہارے نتائج اچھے آتے ہیں، اساتذہ خوش ہیں، اس لیے مجھے آنے کی ضرورت نہیں محسوس ہوتی۔” یہ جواب دل کو سکون دینے والا تھا، مگر دل میں ایک چھپی ہوئی آرزو باقی رہی۔جب میری دستاربندی قریب آئی تو میں نے پختہ ارادہ کیا کہ والد صاحب کو ضرور شریک کروں گا۔ ابتدا میں انہوں نے کمزوری کا عذر کیا، مگر میں نے دل کے درد کے ساتھ ایک طویل پیغام بھیجا۔ والد صاحب کی وسیع ظرفی اور شفقت نے انہیں آمادہ کر لیا۔ اور یوں برسوں کی آرزو حقیقت میں ڈھل گئی۔کراچی پہنچنے کے اگلے ہی دن مجھے یہ شرف حاصل ہوا کہ والد محترم حضرت شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم العالیہ کے درس میں شریک ہوئے۔ انتظامیہ سے اجازت لے کر پانچ احادیث پڑھنے کی سعادت ملی۔ مائیک سنبھالتے ہوئے میں نے اپنا تعارف کرایا اور پھر والد صاحب کی موجودگی میں حضرت شیخ صاحب کے سامنے حضور ? کی احادیث پڑھیں۔ اس وقت والد صاحب کے چہرے پر جو خوشی تھی، اسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں۔ مزید کرم یہ ہوا کہ سخت مصروفیت کے باوجود حضرت شیخ الاسلام صاحب سے ملاقات بھی نصیب ہوئی۔ میں نے حضرت سے عرض کیا: “استادجی! یہ میرے والد محترم ہیں، آلائی بٹگرام سے میری دستاربندی میں شرکت کے لیے آئے ہیں”.حضرت نے والد صاحب کو دعا دی کہ اللہ آپ کے بیٹے کو آپ کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ یہ جملہ والد صاحب کے لیے ایک تاریخی جملہ تھا جو ایک عظیم انسان کی طرف سے کہا گیا۔والد صاحب نے مادر علمی دارالعلوم کراچی کے کئی اساتذہ کے اسباق میں شرکت کی۔ خاص طور پر استاد محترم حضرت مولانا عزیز الرحمن صاحب کے ساتھ پشتو میں طویل اور خوشگوار گفتگو والد صاحب کو بے حد پسند آئی۔ وہ لمحہ میرے لیے بھی باعثِ مسرت تھا کہ میرے والد محترم نے دارالعلوم کے علمی ماحول کو قریب سے دیکھا۔24 جنوری کو وہ دن آیا جس کا میں برسوں سے انتظار کر رہا تھا ، میری دستاربندی کی تقریب۔ والد محترم ایک جانب کرسی پر بیٹھے خاموشی سے منظر دیکھتے رہے۔ تقریب ختم ہوئی تو ہم دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ یہ آنسو محنت، دعاو¿ں اور والدین کی قربانیوں کا حاصل تھے۔ اس کے بعد میرے ماموں جان مولانا زر محمد صاحب استاد الحدیث جامعہ فاروقیہ کراچی کے گھر میں کھانے کا پروگرام تھا، جس میں علمائے کرام اور اعزہ و اقارب نے خوشی سے شرکت کی اور والد محترم کی خوب خدمت اور تکریم میں کسر نہ چھوڑی۔اگلے دن والد صاحب نے اپنی پرانی یادوں کو تازہ کرنے کے لیے مولانا کفایت اللہ صاحب کے ہمراہ گلزار کالونی کی رحمانیہ مسجد کا دورہ کیا، جہاں پچاس برس پہلے وہ امامت کے فرائض انجام دے چکے تھے۔ آج یہ مسجد جامع? العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاو¿ن کی شاخ ہے۔ والد صاحب کے لیے یہ لمحہ گویا وقت کو پیچھے لے جانے کے مترادف تھا۔فیوچر کالونی میں آلائی کی عظیم علمی و روحانی شخصیت مفتی کفایت اللہ صاحب رحم? اللہ علیہ کے مدرسے اور مزار پر حاضری ہوئی۔ اس کے بعد علمائے کرام، والد صاحب کے شاگردوں اور محبین سے ملاقاتیں ہوئیں۔ان مختصر دنوں میں والد صاحب بار بار نصیحت کرتے رہے: “بیٹا، علم پر محنت کرو، غیر سنجیدگی سے بچو، خوش اخلاق اور راسخ فی العلم عالم بنو اور دین کا کوئی بھی کام کرو مگر تدریس کے شعبے کو کبھی نہ چھوڑنا، کیونکہ تدریس ہی سے علم باقی رہتا ہے۔” یہ نصیحتیں آج بھی میرے دل پر گونجتی ہیں۔کراچی میں والد صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے یہ چند دن میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں۔ اکابر کی دعائیں، ملاقاتیں اور والد صاحب کی نصیحتیں ہمیشہ میرے دل میں زندہ رہیں گی۔ آخر میں دل کی گہرائی سے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ والد محترم کو صحت و عافیت والی طویل عمر عطا فرمائے، ہمیں ان کی خدمت کی توفیق دےاور ہمیں اخلاص کے ساتھ دین کی خدمت کی راہوں پر چلائے۔ آمین۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.