عجب ملک کے غضب قوانین

0 329

تحریر۔حمادرضا
ہمارے بچپن میں چھوٹی چھوٹی پاکٹ سائز بچوں کی کہانیاں ملا کرتی تھیں اور اسی طرز کے ننھے منے کتابچے بھی ملا کرتے تھے جن میں ملکوں ملکوں کے دلچسپ اور حیرت انگیز واقعات درج ہوتے تھے جن کے پڑھنے کا اس دور میں ایک الگ ہی رومانس ہوا کرتا تھا اسکول کے زمانے میں ایسی ہی کسی کتاب میں میں نے پڑھا کہ بیلجئیم میں ننگے پاؤں پھرنے والوں کو سزا دی جاتی ہے تو بے اختیار ہنسی نکل گئ کہ ہم تو ادھر سارا دن ننگے پاؤں کھیلتے کودتے ہیں اور یہاں تو پوچھا تک نہیں جاتا بلکہ بعض لڑکے تو پٹھو گرم کھیلنے کے لیے باقاعدہ اپنے جوتے اتار پھینکتے تھے کہ ٹھیکریاں گرنے کے بعد وہ زیادہ تیز بھاگ سکیں گے کچھ قوانین واقعی مضحکہ خیز ہی لگتے ہیں اب پاکستان کی مثال لے لیں پیارے وطن میں گزشتہ آٹھ نو سال سے عام شہری کے لیے اسلحہ لائسنس کے اجراء پر مکمل پابندی عائد ہے(پنجاب میں) لیکن اس پابندی کے باوجود حکومت نے پروفیشنلز کے نام پے ڈاکٹر ،انجنئیرز،وکیلوں کو اس سے استشنیٰ کر رکھا ہے جو کہ کھلا تضاد ہے یعنی ہم نے قانون سازی کو بھی فرقوں میں تقسیم کر رکھا ہے یعنی ڈاکٹروں وکیلوں اور انجنئیروں کی جان زیادہ مقدس ہے اس لیے انہیں حق دفاع بھی زیادہ حاصل ہے اور باقی تمام شہری دوسرے درجے کی کیٹیگری میں شمار ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے حق دفاع زیادہ اہمیت کا حامل نہیں حیرت انگیز طور پر ہر سال ان ڈاکٹروں انجنئیروں اور وکیلوں کی نسبت زیادہ تر صحافی اپنی جان گنواتے ہیں لیکن انہیں بھی لائسنس بنوانے کے حوالے سے کوئ استشنیٰ حاصل نہیں یہاں پر قوانین بھی صرف امراء کے تحفظ کے لیے وجود میں لاۓ جاتے ہیں اگر عوامی پریشر میں آ کر غریبوں کے لیے کوئ قانون سازی کرنی بھی پڑ جاۓ تو اس میں بھی اپنے لیے ایک ہول پہلے سےکھلا چھوڑ لیا جاتا ہے تا کہ مشکل کے وقت اس ہول کو استعمال کر کے با آسانی نکل سکیں بالکل اس چور کی طرح جو چوری سے پہلے ہی اپنی واپسی کی راہ متعین کر چکا ہوتا ہے اس قسم کے دوہرے فیصلوں سے ملک میں لا قانونیت کا بازار زیادہ تیزی سے گرم ہورہا ہے جس کی وجہ سے نا جائز اسلحہ کی ترسیل اور اسے رکھنے کے رحجحان میں گزشتہ ایک دہائ کی نسبت زیادتی دیکھنے میں آئ ہے جسے ریکارڈ نا ہونے کی وجہ سے کھلے طور پر وارداتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے ایک آزاد ریاست میں تمام شہری یکساں حقوق کے حقدار ہوتے ہیں اگر ایسا ہے تو پھر یہ پروفیشنل ازم کے نام پر ہی اسلحہ لائسنس کی تقسیم کیوں عام شہری کے لیے یہ حق کب کھولا جاۓ گا؟ اس حساب سے اگر آنکڑے ملائیں تو ایک زمیندار اور ایک صحافی کو بھی پھر اسلحہ لائسنس کی ضرورت ہے حکومتی نمائندوں نے تو اپنے اردگرد بھی اسیکیورٹی کا حصار بنا رکھا ہے جبکہ غریب لوگوں کو چوروں اور ڈکیتوں کے رحم و کرم پر رکھ چھوڑا ہے حکومت وقت کو اپنے اس ڈبل سٹینڈرڈ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تا کہ عام شہری بھی عوامی سہولیات سے یکساں مستفید ہو اور اپنا حق دفاع کو محفوظ رک

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.