بلوچستان : خواب سے حقیقت تک ترقی کا نیا دور
تحریر : عنایت الرحمن
بلوچستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو اپنی وسعت، جغرافیائی محلِ وقوع اور پوشیدہ خزانوں کی بدولت ہمیشہ سے اہمیت رکھتا آیا ہے۔ مگر آج یہ صوبہ ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے جہاں سرمایہ کاری، ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلتے جا رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبائی حکومت نے یہ عزم کیا ہے کہ بلوچستان کو نہ صرف ملکی بلکہ خطے کا سرمایہ کاری کا مرکز بنایا جائے، اور اس کے لیے ایسی پالیسیاں اور سہولیات متعارف کرائی جا رہی ہیں جن سے مقامی اور بین الاقوامی سرمایہ کار یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکیں۔بلوچستان کی سرزمین قدرتی وسائل سے بھری پڑی ہے۔ یہاں کے پہاڑ اور ریگستان تانبے، سونے، ماربل اور کرومائیٹ کے وسیع ذخائر اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں۔ ریکوڈک اور سیندک جیسے منصوبے دنیا بھر کی توجہ اپنی جانب کھینچ چکے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تیل و گیس کی تلاش کے مواقع اور ایل پی جی ٹرمینلز کے قیام کے امکانات صوبے کی توانائی کی اہمیت کو دوچند کر دیتے ہیں۔ اس سب کے ساتھ ساتھ گوادر بندرگاہ اور چین پاکستان اقتصادی راہداری بلوچستان کو ایک ایسا تجارتی پل بنا رہے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کو آپس میں جوڑ دے گا۔ گوادر فری زون میں صنعتی منصوبے، چینی کمپنیوں کے ساتھ سرمایہ کاری کے معاہدے اور ایران کے ساتھ مشترکہ اقتصادی زونز مستقبل میں خطے کی معیشت کے نقشے کو بدلنے کی طاقت رکھتے ہیں۔زرعی شعبے میں بھی امید کی نئی کرنیں روشن ہو رہی ہیں۔ ایران کے ساتھ ہونے والے حالیہ معاہدوں کے نتیجے میں بلوچستان کے کسانوں اور تاجروں کو اپنے پھل، سبزیاں اور گوشت عالمی منڈیوں تک پہنچانے کا موقع ملے گا۔ سرحدی بازاروں کی فعالی اور بارٹر ٹریڈ کی سہولت مقامی سطح پر تجارت کے فروغ کا باعث بنے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبے کی سمندری حدود میں چھپی ہوئی معیشت پر بھی نظر ڈالیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتنا بڑا خزانہ ہے۔ بلوچستان کے پانیوں میں چالیس سے زائد بڑی مچھلیوں کی اقسام پائی جاتی ہیں، لاکھوں ٹن مچھلی اور جھینگا یہاں سے پکڑا جاتا ہے، مگر اس کی مناسب پروسیسنگ نہ ہونے کی وجہ سے اصل فائدہ ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ اگر اس صنعت کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کر دیا جائے تو یہ زرِمبادلہ کمانے کا سب سے بڑا ذریعہ بن سکتی ہے۔ ڈام کے ساحلی علاقے میں جھینگا فارمنگ کے منصوبے اس سمت میں ایک نئی پیش رفت ثابت ہو سکتے ہیں۔بلوچستان صرف وسائل کا مرکز نہیں بلکہ سیاحت کا بھی خزانہ ہے۔ وسیع و عریض ساحلی پٹی، سنگلاخ پہاڑ اور تاریخی ورثہ اس خطے کو ایک منفرد شناخت دیتے ہیں۔ لسبیلہ میں کوج ریزورٹ جیسے منصوبے یہ ثابت کرتے ہیں کہ اگر درست سمت میں سرمایہ کاری ہو تو بلوچستان نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سیاحوں کے لیے ایک پرکشش مقام بن سکتا ہے۔ ہم نیٹ ورک کا ماحول دوست منصوبہ اس کی ایک تازہ مثال ہے جو سیاحت، روزگار اور ثقافت کو ایک ساتھ آگے بڑھانے کا ذریعہ بنے گا۔یہ تمام منصوبے تب ہی کامیاب ہو سکتے ہیں جب نوجوان اس کا حصہ بنیں۔ بلوچستان کے نوجوانوں کے لیے حکومت نے مختلف اقدامات کیے ہیں جن میں یوتھ ایمپاورمنٹ پروگرام، اسکلز ڈیولپمنٹ اسکیم اور اسکالرشپ پروگرام شامل ہیں۔ یہ اقدامات نہ صرف نوجوانوں کو ہنر مند بنا رہے ہیں بلکہ انہیں کاروباری میدان میں قدم رکھنے اور بیرونِ ملک روزگار کے مواقع تک رسائی بھی دے رہے ہیں۔بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ سرمایہ کاروں کو ایک ہی جگہ پر تمام سہولتیں فراہم کر رہا ہے، جس کی وجہ سے جرمن کمپنیوں سے لے کر چینی سرمایہ کار تک اس صوبے میں دلچسپی ظاہر کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں بیجنگ کانفرنس کے دوران آٹھ ارب پچاس کروڑ ڈالر کے معاہدے ہوئے ہیں، جو بلوچستان کے معاشی مستقبل کے لیے سنگِ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان منصوبوں کے نتیجے میں توانائی، زراعت، صحت، کیمیکلز، آٹو موبائل اور اسٹیل کے شعبوں میں سرمایہ کاری بڑھے گی، لاکھوں روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور ملکی معیشت کو نئی جان ملے
گی۔یوں بلوچستان ایک نئے دور کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ صرف ایک صوبہ نہیں رہا بلکہ ایک ایسا مستقبل کا معاشی و تجارتی مرکز ہے جو اپنے قدرتی وسائل، گوادر بندرگاہ، سی پیک اور عالمی سرمایہ کاروں کی شراکت داری کے ذریعے پورے خطے کی تقدیر بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سرزمین اپنے وسائل، مواقع اور عزم کے امتزاج سے ترقی اور خوشحالی کی ایک ایسی داستان رقم کرنے جا رہی ہے جس کا اثر آنے والی نسلوں تک محسوس ہوگا۔