بڑے ادیب کے فن و شخصیت پر بڑے ادیب کی تصنیف

0 6

بلوچستان کے ادبی منظر میں جھانکئیے تو ادب کے ان گنت مناظر اپنے بھر پور رنگ و رعنائی کے ساتھ ہمیں دکھائی دیں گے ان منظر میں بیک منظر لورالائی کا بھی ہے جسے نکھارنے ، سنوارنے اور خوب سے خوب تر بنانے میں ہمارے بزرگ نامور شاعر ، صاحبِ طرز ادیب اور کہنہ مشق صحافی پروفیسر سیّد خورشید افروز نے اپنی زندگی نصف صدی صرف کی ہے ۔ وہ بیک وقت محقق بھی ہیں ، ناقد بھی ہیں اور اعلیٰ پائے کے نثرنگار بھی ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ پروفیسر خورشید افروز نے ادب کی تمام اصناف پر بھر پور کام کیا ہے ۔ ادبی تحقیق پر تو خورشید افروز کی “مشاھیرِ بلوچستان” کے نام سے آٹھ جلدیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں جبکہ جلد نہم و دہم پر ریسرچ ک نہایت ہی عرق ریز کا جاری و ساری ہے ۔پروفیسر خورشید افروز نے بلوچستان کی تین اہم ادبی شخصیات پر تحقیق کی اور اُن کے فن و شخصیات پر نہایت عمدہ ، مفصل اور سیر حاصل کتب تصنیف کر کے دنیائے ادب میں معرکتہ الاء کار ہائے نمایاں سر انجام دیا ہے ۔یہ کتابیں پروفیسر آغا صادق ، عبدالقادر اثیر اور افضل مراد پر لکھی گئی ہیں ۔
گزشتہ دنوں عپدالقادر اثیر کے حوالے سے تصنیف شدہ کتاب کی رونمائی اکادمی ادبیات پاکستان کوئٹہ میں منعقد ہوئی ۔
عبدالقادر اثیر ایک عہد ساز شخصیت تھے ۔انہوں نے بحیثیت صحافی ماہنامہ اولسں بلوچی اور احوال براہوئی میں نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی اور انہیں لکھنے کے مواقع فراہم کیے ۔ پروفیسر خور شید افروز کی کتاب کی رونمائی کی مناسبت سے منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اکادمی ادبیات پاکستان کویٹہ ڈاکٹر عبد القیوم بیدار نے کہا کہ عبدالقادر اثیر ایک فطرت پسند شخصیت تھے اثیر صاحب نے ساری زندگی ادب کے فروغ وقف کر رکھی تھی ۔وہ اپنے عہد۔کے بہت بڑے ادیب تھے ۔ تقریب کی صدارت اکادمی ادبیات پاکستان کویٹہ کے ناظم پروگرام ڈاکٹر عبد القیوم بیدار نے کی جبکہ مہمان خصوصی نامور شاعر استاد رشید حسرت اور مہمان اعزاز پروفیسر خورشید افروز تھے ۔میزبانی کے فرائض نور خان محمد حسنی نے ادا کیے ۔ اس موقع پر پروفیسر اکبر ساسولی ، شاھین بارانزئی ، پرفیسر خورشید افروز اور ڈاکٹر عبد القیوم بیدار نے اثیر عبدالقادر شاہوانی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اثیر عبدالقادر شاہوانی ایک نامور شاعر ادیب اور صحافی تھے انہوں نے بلوچستانی ادب کے حوالے سے بہت زیادہ کام کیا ۔انہوں نے نوجوان لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کی ۔ بلوچی اکیڈیمی اور براہوئی اکیڈمی میں بطور جنرل سیکرٹری کام کرکے ان زبانوں کی ترویج و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ۔انہوں کہا کہ پروفیسر خورشید افروز نے اثیر شاہوانی کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اہم کتاب مرتب کی ۔اس کتاب کے مطالعہ سے اثیر عبدالقادر شاہوانی کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو سمجھنے میں آسانی ہو گی ۔ بعد ازاں محفل مشاعرہ ہوا۔ اس مشاعرے میں جن شعرا نے اپنا کلام پیش کیا ۔ ان میں استاد رشید حسرت ، ڈاکٹر قیوم بیدار ، پروفیسر خورشید افروز ، نور خان محمد حسنی ، عجب خان ساہل ، عزیز حاکم ، شاہنواز رودین ، افتخار بلوچ اور اکبر ساسولی شامل تھے ۔
پشتو اکیڈمی کوئٹہ نے امسال کئی موضوعاتی ادبی نوعیت کے پروگرام ترتیب دیئے ہیں ۔گزشتہ دنوں اِسی سلسلے میں ادبی موضوع پر لیکچر کا اہتمام کیا گیا ، جس میں معروف افسانہ نگار ایڈووکیٹ فاروق سرور نے پشتو افسانہ اور عالمی افسانے کے تناظر میں اپنا جامع اور مدلل لیکچر دیا ۔
اِس موقع پر پشتو ادب سے رغبت رکھنے والے نوجوان ادیبوں کی ایک کثیر تعداد موجود تھی ۔
تقریب کا آغاز احسان اللہ کی تلاوت قرآنِ پاک سے ہوا نظامت کے۔فرائض عادل اچکزئی نے انجام دیئے ۔
پریس کلب کوئٹہ میں ڈس ایبل ویلفیئر سوسائٹی بلوچستان کے صدر حافظ حنیف کاکڑ اور ثناء اللہ مری نے سفید چھڑی کی مناسبت سے ایک پُر وقار تقریب کا اہتمام کیا دنیا بھر میں ہر سال 15 اکتوبر کو عالمی یومِ تحفظ سفید چھڑی منایا جاتا ہے ۔ جس کا مقصد بصارت سے محروم اور دیگر معذور افراد کے مسائل کو اجاگر کرنا اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے معاشرتی شعور بیدار کرنا ہے۔ کوئٹہ پریس کلب کوئٹہ میں منعقدہ تقریب کا عنوان “معذور افراد کے مسائل اور ہماری ذمہ داریاں” تھا ۔
تقریب طعامِ مسکین فاؤنڈیشن اور پاکستان ڈس ایبل فاؤنڈیشن کے اشتراک سے منعقد کی گئی تھی ۔
تقریب کی صدارت آل ڈس ایبل ویلفیئر سوسائٹی کے صدر محمد حنیف کاکڑ نے کی جبکہ مہمانِ خصوصی حاجی نذیر احمد تھے۔ مقررین میں ثناء اللہ مری ، اللہ رکھا، غلام دستگیر اور دیگر معزز شخصیات شامل تھیں جنہوں نے نہایت درد مندی سے معذور افراد کے مسائل اور معاشرتی رویّوں پر گفتگو کی۔
مقررین نے اس بات پر زور دیا کہ معذور افراد محض ترس کھانے کے نہیں، بلکہ احترام و تعاون کے مستحق ہیں۔ حاجی نذیر احمد نے اپنے خطاب میں کہا کہ سفید چھڑی صرف ایک علامت نہیں بلکہ خود اعتمادی، حوصلے اور زندگی کی جدوجہد کی نشانی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ کمزوری کے باوجود انسان اپنے پاؤں پر کھڑا رہ سکتا ہے، بس سماج کو تھوڑا سا سہارا دینا ہوگا۔”
محمد حنیف کاکڑ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ حکومت اگر معذور افراد کے لیے وضع کیے گئے قوانین پر صحیح معنوں میں عملدرآمد کرے ، تو ہزاروں افراد معاشرتی و معاشی طور پر خودکفیل ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے بلوچستان جیسے پسماندہ صوبے میں معذور افراد کو بنیادی سہولیات کی فراہمی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری دفاتر میں داخلے کے لیے رمپ تک نہیں، اور بیشتر ادارے ابھی تک معذوروں کے کوٹے پر بھرتی کے نظام کو سنجیدگی سے نہیں لیتے۔
ثناء اللہ مری نے کہا کہ ہمیں معذور افراد کو ترس کا نہیں بلکہ موقع کا حق دینا ہوگا۔ “ان کے لیے تعلیم کے دروازے کھلے رکھنے ہوں گے، تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق ملک و قوم کی ترقی میں کردار ادا کر سکیں۔”
تقریب کے آخر میں تمام مقررین نے اس امر پر اتفاق کیا کہ معذور افراد کی بحالی اور فلاح کے لیے صرف حکومتی کوششیں کافی نہیں، بلکہ عوامی سطح پر شعور بیدار کرنے، تنظیمی تعاون بڑھانے اور اخلاقی ذمہ داری کا احساس اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب کے اختتام پر معذور افراد میں سفید چھڑیاں، کمبل اور مچھر دانیاں تحائف کے طور پر تقسیم کی گئیں۔ اس موقع پر حاضرین نے معذور بھائیوں کے چہروں پر مسکراہٹ دیکھی تو فضا میں ایک اطمینان کی لہر دوڑ گئی ۔
یہ تقریب محض ایک رسمی اجتماع نہیں تھی بلکہ احساس و شعور کا وہ پیغام تھی جو ہر دل میں اترتا محسوس ہوا۔ معذور افراد کے مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کئی مقررین کی آنکھوں میں نمی تھی ،اگرچہ معذور افراد کے لیے قوانین موجود ہیں، مگر ان پر عملدرآمد کا فقدان ہماری اجتماعی بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔ سفید چھڑی کا دن ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ زندگی کے اس سفر میں ہر وہ فرد جو کسی جسمانی کمی کے باعث مشکلات کا شکار ہے، ہمارے تعاون اور محبت کا مستحق ہے۔
ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ معذوری جسم میں ہوتی ہے، صلاحیت میں نہیں۔ کئی نابینا افراد نے دنیا کے سب سے بڑے علمی، سائنسی، اور سماجی کارنامے انجام دیے ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم ان کے لیے دروازے بند کرنے کے بجائے سہارا بنیں، اور ان کے خوابوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا ہنر سیکھیں۔
کوئٹہ میں ہونے والی یہ تقریب اسی امید کی ایک جھلک تھی—کہ اگر ہم سب اپنی اپنی جگہ تھوڑا سا کردار ادا کریں تو معذور افراد کے لیے یہ دنیا بھی قابلِ رسائی، محفوظ اور خوبصورت بن سکتی ہے۔ براھوئی زبان کے سینئر ترین شاعر اسحاق سوز اِن دنوں علیل ہیں ا۔ر کراچی کے ایک نجی ہسپتبل میں زیرِ علاج ہیں اہلِ ادب سے اُن کی صحت یابی کیلیے دعا کی استدعا کی گئی ہے ۔
بزم صائم ادبیات بلوچستاننے ععفبن الحق صائم کی آٹھویں برسی عقیدت و احترام سے منانے کا اعلان کر دیا ہے ۔ دائرہِ علم و ادب پاکستان دو روزہ مشاوتی اجلاس کی تیاریاں جاری ہیں ۔یاد رہے پاکستان بھر سے عہدیداران کی تربیت اور رہنمائی کیلیے دو روزہ تقریب پنجاب کے تاریخی شہر پھالیہ میں منعقد کی جا رہی ہے ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.